کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 384
کو اثبت قرار دیا ہے۔ (سؤالات ابن بکیر للدارقطنی، رقم: ۵۵)
اس لیے اگر یہ راویان امام ابن ابی عروبۃ سے روایت میں متفق ہوں تو بلاشبہ ان ہی کی روایت راجح ہوگی۔
امام ابو علی کا شذوذ کی طرف اشارہ:
اسی بنا پر حافظ ابو علی نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سالم بن نوح نے عمر بن عامر سے روایت کرنے میں اسی طرح غلطی کی ہے، جس طرح ابن ابی عروبۃ سے روایت کرنے میں غلطی کی ہے۔ کیونکہ سعید (بن ابی عروبۃ) کی حدیث کو یحییٰ بن سعید (القطان)، یزید بن زریع اسماعیل بن علیہ اور ابن ابی عدی وغیرہ نے بیان کیا ہے، جب یہ تلامذہ ہوں تو سالم بن نوح کے مقابلے میں ان کی بات مقدم ہے۔‘‘ (کتاب القراء ۃ، ص: ۱۳۱)
امام ابن ابی عروبۃ کے ان پانچ شاگردوں کے علاوہ اس روایت میں دیگر شاگرد ملاحظہ ہوں۔
6۔ سعید بن عامر۔ سنن الدارمي (۱/ ۲۴۳، ۲۵۵، حدیث: ۱۳۱۸، ۱۳۶۵) مسند أبي عوانۃ (۲/ ۱۲۹)، شرح معاني الآثار للطحاوي (۱/ ۲۲۱، ۲۳۸، ۲۶۴۔ ۲۶۵)، کتاب القراء ۃ (ص: ۱۲۹، رقم: ۳۰۷)
7۔ محمد بن ابراہیم بن ابی عدی۔ سنن ابن ماجہ (۹۰۱)، صحیح ابن خزیمۃ (۳/ ۳۸، حدیث: ۱۵۸۴)، التمھید لابن عبدالبر (۶/ ۱۴۶۔ ۱۴۷)