کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 381
ہے، اور (۱۲) امام بزار رحمہ اللہ نے بھی حسبِ افتاد تفرد اور نکارت کی جانب اشارہ فرمایا ہے۔ اور محترم زبیر صاحب اسے حسن لذاتہ قرار دیتے ہیں! شذوذ کی دوسری دلیل: ابن ابی عروبۃ سے تفرد: اس زیادت کو جس طرح سالم بن نوح، عمر بن عامر سے بیان کرتے ہیں۔ مسند البزار (۸/ ۶۶، ح:ـ ۳۰۶۰) اسی طرح عمر بن عامر اور سعید بن ابی عروبۃ دونوں سے بیان کرتے ہیں۔ سنن الدارقطني (۱/ ۳۲۹، دوسرا نسخہ، رقم ۱۲۳۴/ ۱۶) سنن بیہقي (۲/ ۱۵۶) و کتاب القراء ۃ للبیھقي (ص: ۱۳۰، رقم ۳۱۰) سالم بن نوح بقول شیخ زبیر حفظہ اللہ کے صدوق، حسن الحدیث ہیں۔ (الاعتصام: ج: ۶۰، ش: ۴۶، ص: ۲۰، کالم: ۲) مگر ابن ابی عروبۃ کے دوسرے تلامذہ جو سالم سے بدرجہا ثقہ اور ثبت ہیں، بلکہ ان سے روایت کرنے میں ’’أثبت الناس‘‘ ہیں۔ وہ اس زیادت کو بیان نہیں کرتے۔ جو واضح نشانی ہے کہ سالم بن نوح کا اس روایت کو ابن ابی عروبۃ سے روایت کرنا وہم کا شاخسانہ ہے، فی الواقع کچھ نہیں۔ شذوذ کا پہلا قرینہ: اب ابن ابی عروبۃ کے شاگردوں کا تذکرہ ملاحظہ ہو۔ 1۔ یزید بن زریع البصری ابو معاویہ ثقۃ ثبت ہیں۔ (التقریب: ۸۶۸۹) ان کی روایت ’’فأنصتوا‘‘ کی زیادت کے بغیر مسند أبي یعلی (۶/ ۳۷۹، برقم: ۷۱۸۹) المسند المستخرج لأبي نُعیم (۲/ ۲۸، حدیث: ۸۹۸) کتاب القراء ۃ للبیہقي (ص: ۱۳۰، ۱۳۱) میں ہے۔