کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 380
کے ہاں بھی سالم کی ان دونوں سے روایت کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسے معلول قرار دیا ہے، بلکہ اسے وہم قرار دینے والوں میں امام بخاری، امام ابو داود، امام ابو علی نیشاپوری اور امام ابن خزیمہ رحمہم اللہ کو بھی شامل فرمایا ہے۔ (کتاب القراء ۃ للبیھقی، ص: ۱۳۱) امام بزار رحمہ اللہ کی البحر الزخار، غرائب و أفرادات بلکہ علل الحدیث پر بھی مشتمل ایک بہترین مسند ہے۔ بنا بریں اسے ’’المسند المعلل الکبیر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں امام بزار رحمہ اللہ معلول روایات کی نشاندہی مختلف انداز سے کرتے ہیں۔ اس لیے یہاں بھی انھوں نے تیمی کی زیادت کے اثبات کے لیے عمر بن عامر کی متابعت ذکر نہیں کی، بلکہ دیگر ناقدین کی طرح اس زیادت کے تفرد اور نکارت کی جانب اشارہ فرما رہے ہیں۔ (البحر الزخار: ۸/ ۶۶ برقم: ۳۰۶۰) ان کے علاوہ محدث عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ صاحب تحفۃ الأحوذی، أبکار المنن (ص: ۳۳۱ طبعۃ جدیدۃ) و تحقیق الکلام في وجوب القراء ۃ خلف الإمام (۲/ ۸۹)، حضرت العلام محدث محمد گوندلوی رحمہ اللہ ، خیر الکلام (ص: ۴۱۷۔ ۴۱۸) حضرت مولانا استاذ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ، توضیح الکلام (ص: ۶۸۱) اور دکتور ماہریسین فحل ’’الجامع في العلل والفوائد (۳/ ۲۲۰) نے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ گویا اس زیادت کو: (۱) امام بخاری۔ (۲) امام ابو داود۔ (۳) امام دارقطنی۔ (۴) امام ابو علی نیشاپوری۔ (۵) امام بیہقی۔ (۶) امام ابن خزیمہ۔ (۷) امام ابن عدی۔ (۸) محدث عبدالرحمن مبارکپوری۔ (۹) محدث محمد گوندلوی۔ (۱۰) استاذ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ۔ (۱۱) دکتور ماہریسین فحل نے شاذ اور وہم قرار دیا