کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 379
’’عمر لیس بالقوي، ترکہ ابن القطان‘‘
اور الغرائب والأفراد (۵/ ۱۲۹ ۔الأطراف للمقدسی) میں سالم بن نوح کو اس کی علت گردانتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’سالم بن نوح ان دونوں (عمر بن عامر اور سعید بن ابی عروبۃ) سے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ ان سے قطعی روایت کرنے میں منفرد ہے اور یہ روایت سلیمان تیمی عن قتادۃ سے معروف ہے۔‘‘(الغرائب والأفراد للدارقطنی)
گویا سند میں تفرد در تفرد ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ کے ہاں اس زیادت کو بیان کرنے میں عمر بن عامر نے غلطی کی ہے یا ان کے شاگرد سالم بن نوح نے۔
حافظ ابن عدی رحمہ اللہ نے ’’الکامل‘‘ (۳/ ۱۱۸۴) میں یہ روایت سالم بن نوح کے ترجمہ میں ذکر کی ہے۔ گویا ان کے ہاں اس کی علت موصوف ہیں۔ پھر وہ ان کے ترجمہ کے آخر میں فرماتے ہیں:
’’عندہ غرائب وأفرادات، وأحادیثہ محتملۃ متقاربۃ‘‘(الکامل: ۳/ ۱۱۸۵)
’’اس کے ہاں غرائب اور افرادات احادیث ہیں۔ اس کی احادیث محتمل اور متقارب ہیں۔‘‘
یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ انھوں نے ان کے ترجمہ میں درجن کے لگ بھگ ایسی روایات ذکر کی ہیں جن میں سالم نے غلطی ہے۔
ان میں نصف درجن ایسی بھی مرویات ہیں جنھیں سالم، عمر بن عامر یا سعید بن ابی عروبۃ سے بیان کرنے میں غلطی کر گئے۔ چونکہ متذکرہ بالا زیادت والی روایت بھی سالم ان دونوں شیوخ سے کرتے ہیں۔ جس سے حافظ ابن عدی رحمہ اللہ