کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 378
اس اصول کو آپ پیش آئندہ مثال سے بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ محدثین نے جب سلیمان تیمی کی زیادت کو شاذ قرار دیا تو ساتھ ہی اس کے دو متابع کو بھی ناقابلِ اعتبار قرار دیا اور اس کے شاہد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی حقیقت بھی بخوبی واضح کر دی۔
اس اصول کو ذکر کرنے کے بعد پہلے متابع کی حقیقت واضح کیے دیتے ہیں۔
عمر بن عامر کی متابعت کا جائزہ:
محترم زبیر صاحب رقمطراز ہیں: ’’امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حدثنا محمد بن یحیی القطعی قال: أخبرنا سالم بن نوح عن عمر بن عامر عن قتادۃ۔۔۔‘‘ (البحر الزخار: ۸/ ۶۶، ح: ۳۰۶۰)
’’اس کی سند حسن لذاتہ ہے۔‘‘ (الاعتصام: ج: ۶۰، ش: ۴۶، ص: ۲۰ محصلہ)
اس متابعت کو امام بزار رحمہ اللہ کے علاوہ امام رویانی رحمہ اللہ (المسند: ۱/ ۲۱۹، برقم ۵۶۵) امام دارقطنی رحمہ اللہ (العلل: ۷/ ۲۵۳۔ ۲۵۴، السنن: ۱/ ۳۳۰) اور حافظ ابن عدی رحمہ اللہ (الکامل: ۳/ ۱۱۸۴) وغیرہ نے بھی بیان کیا ہے۔
یہ متابعت بھی شاذ ہے:
عمر بن عامر کی متابعت کے حوالے سے اولاً گذارش ہے کہ تیمی کی زیادت کی طرح یہ متابعت بھی شاذ اور بے اصل ہے۔ عمر بن عامر یا ان کے شاگرد سالم بن نوح نے اسے غلطی سے بیان کیا ہے۔
چنانچہ حافظ الدنیا امام دارقطنی رحمہ اللہ نے (علل الأحادیث: ۷/ ۲۵۴۔ ۲۵۵) میں اس سند کو مطلق طور پر غلط اور زیادت کو وہم قرار دیا ہے۔ جبکہ (التتبع، ص: ۱۷۱) میں اس کا سبب عمر بن عامر کو قرار دیا ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں: