کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 376
دوسرا گروہ ان محدثین کا ہے، جنھوں نے صحیح مسلم کو کتبِ صحاح میں شمار کیا ہے۔ تیسرے گروہ میں امام مسلم، امام احمد اور امام ابو نعیم رحمہم اللہ ہیں۔ جن کی تصحیح کی حقیقت اوپر مذکور ہوچکی ہے۔ گویا اس حدیث یا زیادت کے اصل مصححین کی تعداد نو ہے۔ کیونکہ ایسے موقع پر شیخ زبیر صاحب معاصرین کی رائے تسلیم نہیں کرتے۔ اور ان میں دو معاصرین امام البانی رحمہ اللہ اور شیخ سلیم ہلالی موجود ہیں۔ چنانچہ محترم زبیر صاحب لکھتے ہیں: ’’یہ ہے جناب خبیب صاحب کی کل فہرست، جس میں پانچ معاصرین اور دو قریبی دور کے علماء کو نکالنے کے بعد باقی سترہ بچے، جن میں سے بعض کے حوالے محلِ نظر ہیں۔ ان سترہ کے مقابلے میں بیس سے زیادہ علماء و محدثین کا صحیح مسلم کی حدیث کو صحیح کہنا یا صحیح قرار دینا اس کی واضح دلیل ہے کہ یہ حدیث جمہور کے نزدیک صحیح و ثابت ہے، والحمد ﷲ۔‘‘ (الاعتصام: ج: ۶۰، ش: ۴۶، ص: ۲۰) قارئینِ کرام! ذرا انصاف فرمائیں، جن محدثین نے اس زیادت کو صراحتاً شاذ قرار دیا ہے، ان کا قول راجح ہے یا جنھوں نے مطلقاً صحیح مسلم کو کتبِ صحاح میں شمار کیا ہے؟ محدثین کا اصولِ درایت اس کے شذوذ کا متقاضی ہے یا صحت کا؟ خاص دلیل کو پیشِ نظر رکھا جائے گا یا عام دلیل کو؟ مفسر جرح مقدم ہوگی یا مطلق تصحیح؟ شاذ قرار دینے والی جماعت کی معرفتِ علل وسیع ہے یا تصحیح کرنے والی جماعت کی؟ صحیح مسلم کی اسانید کا دراستہ کرنے والوں کے ہاں یہ شاذ ہے یا محفوظ؟ شارحینِ صحیح مسلم کا رجحان اس کے شذوذ کی طرف ہے یا درستی کی طرف؟