کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 375
ہی اس کے شذوذ کا متقاضی ہے۔ جس پر ہم بڑی تفصیل سے گفتگو کر چکے ہیں۔
اگر بفرضِ محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کی تصحیح کی ہے، جیسا کہ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اس کی صراحت کی ہے تو جمہور متقدمین کی رائے کے مقابلے میں امام احمد رحمہ اللہ کی رائے کی کیا پوزیشن ہے؟
اس گروہ کے تیسرے امام، امام ابو نعیم رحمہ اللہ ہیں۔
امام ابو نُعیم کی تلمیح:
موصوف کی کتاب ’’المسند المستخرج علی صحیح الإمام مسلم‘‘ معروف اور متداول ہے۔ چونکہ یہ صحیح مسلم پر مستخرج ہے۔ اور اس میں مصنف اپنی سند سے امام مسلم کی بیان کردہ احادیث روایت کرتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بھی ذکر فرمایا۔ جس بنا پر محترم زبیر صاحب نے ان کی جانب سے اس زیادت کو صحیح قرار دیا ہے۔
جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ امام ابو نعیم رحمہ اللہ بھی اس زیادت کی تصحیح نہیں فرما رہے، بلکہ دیگر محدثین کی طرح سلیمان تیمی کے تفرد کی جانب اشارہ فرما رہے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’ولیس في حدیث واحد منھم الزیادۃ‘‘(المسند المستخرج: ۲/ ۲۸، حدیث: ۸۹۸)
’’قتادۃ کے شاگردوں کی روایت میں یہ زیادت نہیں پائی جاتی۔‘‘
اس لیے امام ابو نُعیم رحمہ اللہ کو اس زیادت کے مصححین میں شامل کرنا محلِ نظر ہے۔
ہماری سابقہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ محدثین کے پہلے گروہ نے اس زیادت یا حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کی علت پر مطلع نہ ہوسکے، یا ان کے نزدیک یہ زیادت ثقہ راوی کی ہے، اس لیے مقبول ہے۔