کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 374
اگر ان محدثین کا سلیمان تیمی کی زیادت پر نقد کرنا ثابت نہیں تو اس کے شذوذ کا دفاع کرنا بھی ثابت نہیں، گویا وہ اس علتِ قادحہ پر مطلع نہ ہوسکے، جس تک دیگر محدثین نے رسائی حاصل کر لی ہے۔ تیسرے گروہ میں پہلے امام، امام مسلم رحمہ اللہ ہیں۔ بلاشبہ متعدد محدثین کے نزدیک امام مسلم رحمہ اللہ اس کی تصحیح کے قائل ہیں۔ جیسا کہ محترم زبیر صاحب نے بھی نقل کیا ہے۔ مگر ہم حافظ ابو مسعود الدمشقی رحمہ اللہ کا قول ذکر کر آئے ہیں کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اسے بیانِ علت کے لیے ذکر کیا ہے اور قرائن بھی اس کے مؤید ہیں۔ بطورِ تنزل اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ امام مسلم رحمہ اللہ اس کی تصحیح کے قائل ہیں، تب بھی یہ زیادت معلول رہے گی، کیونکہ سبھی متقدمین نے اسے سلیمان تیمی کا شذوذ قرار دیا ہے۔ اس گروہ میں دوسرے امام، امام احمد رحمہ اللہ ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ کی تصحیح کا جواب: ہم سابقہ مضمون میں عرض کر چکے ہیں کہ ممکن ہے انھوں نے پہلے تصحیح کی ہو، مگر بعد ازاں اصل حقیقت کے انکشاف پر اسے معلول قرار دیا ہو۔ ہمارے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا صاحب رقمطراز ہیں: ’’ممکن ہے کہ انھوں نے پہلے اس پر اضطراب کا حکم لگایا ہو اور بعد میں تحقیق کرنے پر اسے صحیح قرار دیا ہو، کیا خیال ہے۔‘‘ (الاعتصام: ج: ۶۰، ش: ۴۵، ص: ۲۰) امام احمد رحمہ اللہ پر اس زیادت کی حقیقت منکشف ہونے پر اسے صحیح قرار دینا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہے، کیونکہ جمہور متقدمین و متأخرین کا اصولِ درایت