کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 372
ہو کر سنے۔ اس لیے یہ زیادت حدیث میں مذکور بقیہ احکام کے منافی ہے۔ اسی حوالے سے شیخ زبیر صاحب کے استاذِ محترم، شیخ العرب والعجم، محدث حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’جو لوگ اس زیادتی کو بقیہ حدیث کے منافی قرار دیتے ہیں، ان کی تقریر یہ ہے کہ شروعِ حدیث میں یہ جملہ ہے: ’’إنما جعل الإمام لیؤتم بہ‘‘ (امام اس وجہ سے مقرر کیا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتدا کی جائے)۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ لفظ بھی ہیں: ’’فلا تختلفوا علیہ‘‘ سنن کبری (۲/ ۱۵۶) (اس کے ساتھ مخالفت نہ کرو) یعنی جس طرح امام کرے اسی طرح کرو۔ اس جملہ کا تقاضا یہ ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے پڑھے مگر اس زیادتی کا تقاضا سمجھا جاتا ہے کہ مقتدی نہ پڑھے۔ پس اس صورت میں یہ زیادتی بقیہ حدیث کے منافی ہوگی۔‘‘ (خیر الکلام از محدث گوندلوی، ص: ۴۳۱)
قارئینِ کرام! ذرا غور فرمائیں کہ وہ تو اس زیادت کو بقیہ حدیث کے منافی قرار دے رہے ہیں اور محترم زبیر صاحب ان کی مخالفت میں بھی جمع و توفیق کو رکاوٹ بنائے ہوئے ہیں!
وہ تیسری دلیل کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ متعدد محدثین نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
ہم ان مصححین کو تین گروہوں میں بانٹتے ہیں:
پہلے گروہ میں: (۱).امام ابو عوانہ اسفرائنی رحمہ اللہ ۔(۲).امام ابن المنذر رحمہ اللہ ۔(۳).امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ ۔ (۴).حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ۔ (۵).شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ۔(۶).امام ابن العربی رحمہ اللہ ۔ (۷).امام منذری رحمہ اللہ ۔ (۸).حافظ