کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 371
میں ’’شاذ کسے کہتے ہیں‘‘ کے عنوان کے تحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اسی قول کی طرف مراجعت کا مشورہ بھی دیا ہے۔ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۶، ص: ۲۳)
مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظروں سے ’’علی قواعد المحدثین‘‘ کی تصریح اوجھل رہی ہے۔ واللّٰه أعلم۔
قارئینِ کرام! ان کی پہلی دلیل کا جواب دینے کے بعد اب دوسری دلیل کا جواب پیشِ خدمت ہے۔
چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’یہ زیادت بقیہ حدیث کے منافی نہیں۔‘‘(الاعتصام: ج: ۶۰، ش: ۴۸، ص: ۲۷ ملخصاً)
یہ زیادت بھی بقیہ حدیث کے منافی ہے:
’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیثوں میں مذکور ہے۔ مگر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی مذکور ہیں:
’’إنما جعل الإمام لیؤتم بہ؛ فلا تختلفوا علیہ‘‘
’’امام اس وجہ سے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا تم اس سے اختلاف نہ کرو۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: ۶۸۸، و صحیح مسلم: ۴۱۱)
پھر اس جملہ کی توضیح میں مزید فرمایا گیا:
’’جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔۔۔ ۔‘‘
گویا امام کی اقتدا پوری نماز میں فرض ہے۔ اگر ’’فأنصتوا‘‘ کی زیادت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے امام اور مقتدی دونوں کے عمل میں تضاد پیدا ہوجائے گا۔ یعنی امام قراء ت کرے اور سورت فاتحہ کی قراء ت کے علاوہ مقتدی خاموش