کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 370
چنانچہ اسی حوالے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حافظ علائی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:
’’فمتی وجدنا حدیثاً قد حکم إمام من الأئمۃ المرجوع إلیھم بتعلیلہ، فالأولی اتباعہ في ذلک کما نتبعہ في تصحیح الحدیث إذا صححہ‘‘
)النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر: ۲/ ۷۱۱، ۷۷۷(
’’اگر ہمیں کوئی ایسی حدیث ملے، جسے ان ائمہ میں سے کسی نے معلول قرار دیا ہو، جو احادیث کی علل معلوم کرنے کے لیے لوگوں کا مرجع ہیں، تو زیادہ لائق ہے کہ ہم اس کی تعلیل کے حکم میں بھی اس امام کی اتباع کریں، جیسے ہم کسی حدیث کی تصحیح میں اس کا اعتبار کرتے ہیں۔‘‘
اس لیے جہاں کسی حدیث کی صحت کے اثبات کے لیے ان ائمہ کی آرا کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہاں ضروری ہے کہ کسی حدیث کی علت کی نشان دہی میں بھی انھیں پسِ پشت نہ ڈالا جائے۔ انھی کے قواعد کے مطابق جمع و تطبیق کی صورت پیدا کی جائے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’علی قواعد المحدثین‘‘ کی صراحت کی ہے، حافظ صاحب کے اس قول کے بارے میں علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فھذا التعریف ھو الذي علیہ المحققون، وھو المعتمد‘‘(أبکار المنن، ص: ۱۱۲)
’’یہ ایسی تعریف ہے، جسے محققین تسلیم کرتے ہیں اور یہی مستند ہے۔‘‘
علامہ طاہر الجزائری رحمہ اللہ نے بھی ’’توجیہ النظر‘‘ (ص: ۱۰۱) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ذکر کیا ہے اور ان کی خاموش تائید کی ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ محترم زبیر صاحب نے اپنے مضمون