کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 369
قواعد المحدثین= فھذا شاذ‘‘ (ھدی الساري، ص: ۳۸۴۔ ۳۸۵) ’’اگر ثقہ یا صدوق راوی کسی روایت کو اپنے سے احفظ (اوثق) یا جماعت کی روایت کے خلاف بیان کرے۔ اور اس میں محدثین کے قواعد کے مطابق جمع بھی ممکن نہ ہو تو وہ شاذ ہے۔‘‘ ان کے اس قول کی روشنی میں سلیمان تیمی کی زیادت بھی شاذ ٹھہرتی ہے، کیونکہ وہ أحفظ کی روایت کے بھی منافی ہے اور جماعت کی روایت کے بھی، جس کی تفصیل ہم سابقہ مضمون میں عرض کر چکے ہیں۔ اس زیادت میں جمع کی بھی کوئی صورت نکل نہیں سکتی، کیونکہ اس کے لیے محدثین کے قواعد کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا، جبکہ ادھر تو صورتِ حال یہ ہے کہ اس اضافے کو امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم الرازی، امام ذہلی، امام بخاری، امام احمد، امام اثرم، امام ابوداود، امام ابن خزیمہ، امام بیہقی، امام ابوعلی نیشاپوری، امام ابن عمار الشہید، امام دارقطنی، امام نووی رحمہم اللہ ایسے اعیان وہم اور شذوذ قرار دے رہے ہیں۔ بلکہ اس پر امام بیہقی تو متقدمین محدثین کا اتفاق نقل کر رہے ہیں۔ وہ کیسی ’’تطبیق و توفیق‘‘ ہے جو ان ماہرینِ علل کی آرا کو پسِ پُشت ڈال کر کی جائے۔ حالانکہ مصطلح الحدیث کی تکوین کا منبعہ تو انھیں کی اصطلاحات کا استقرا اور تتبع ہے۔ اس سے ان کی روایات میں ’’جمع و تطبیق‘‘ کی پوزیشن محسوس کی جا سکتی ہے کہ وہ اس زیادت کو صحیح قرار دے کر کتنی دیدہ وری سے جھابذہ ائمہ کی مخالفت کر رہے ہیں! مقامِ تعجب ہے کہ اگر کسی روایت کو یہی محدثین صحیح قرار دیں تو اسے صحیح تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ مگر ان کی معلول کردہ روایت کی علت کو ’’تطبیق و توفیق‘‘ کی آڑ میں قبول نہیں کیا جاتا!