کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 368
8۔ جس زیادۃ الثقہ میں منافات نہ ہو تو وہ شاذ قرار نہیں پاتی۔ 9۔ محدثین زیادۃ الثقہ بدونِ منافات کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں۔ 10۔ زیادۃ الثقہ بدونِ منافات کے مقبول ہونے کی دس مثالیں۔ اب ترتیب وار ان دلائل کے جوابات ملاحظہ فرمائیں: پہلی دلیل کے حوالے سے محترم زبیر صاحب رقمطراز ہیں: ’’ثقہ راوی کی زیادت اگر من کل الوجوہ منافی نہ ہو، جس میں تطبیق و توفیق ممکن ہی نہیں ہوتی تو پھر عدمِ منافات والی یہ زیادت مقبول و حجت ہے۔‘‘ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۸، ص: ۲۷) موصوف کا مقصود یہ ہے کہ ’’فأنصتوا‘‘ سلیمان تیمی کی ایسی زیادت ہے جو کسی بھی صورت میں امام قتادۃ کے دوسرے شاگردوں کی روایت کے منافی نہیں۔ اس لیے تیمی کے ذکرِ زیادت اور باقی راویان کے عدمِ ذکر میں تطبیق ممکن ہے۔ کیونکہ تیمی ثقہ راوی ہیں اور انھوں نے اپنے استاد امام قتادۃ سے ایسے الفاظ سماعت کیے ہیں، جس سے باقی شاگرد محروم رہے ہیں، اس لیے یہ اضافہ مقبول اور قابلِ اعتبار ہے۔ مگریہ اصول درست نہیں، کیونکہ جمع و تطبیق بھی محدثین کی آرا کی روشنی میں ہوگی۔ تطبیق کے لیے کسوٹی: آرائے محدثین: احادیث اور ان کے راویان کی جانچ پڑتال چونکہ محدثین کا وتیرہ ہے، بنا بریں روایات میں تطبیق کے لیے بھی انھیں یا ان کے قواعد کو مدِّ نظر رکھنا ہوگا۔ چنانچہ اسی حوالے سے استاذ الدنیا فی علم الحدیث حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فإذا روی الضابط والصدوق شیئاً، فرواہ من ھو أحفظ منہ أو أکثر عدداً بخلاف ما روی، بحیث یتعذر الجمع علی