کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 367
قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔‘‘(ماہنامہ الحدیث: شمارہ: ۵۴، نومبر ۲۰۰۸ء، ص: ۲۱ ۔اعلانات) سوال یہ ہے کہ یہ ’’کوشش‘‘ ناقدین کے اصولِ درایت کو بالائے طاق رکھ کر کی ہے یا انھیں کے مقرر کردہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے بلکہ ان کی رائے کی بنیاد پر اپنی رائے پیش کرتے ہوئے اس زیادت کے وہم ہونے کے نتیجہ پر پہنچے ہیں؟ پھر کیا اسی ’’کوشش‘‘ کے مرتکب وہ جلیل القدر بھی ہیں، جنھوں نے اس زیادت کو ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے؟ بہر حال ہمیں یہ احساس بڑی شدّت سے رہے گا کہ ’’صحیح مسلم کی ایک حدیث کا دفاع‘‘ ان ماہرین کے مقدر میں نہ آسکا۔ قارئینِ کرام! محترم زبیر صاحب نے اس زیادت کے محفوظ ہونے کے درج ذیل دلائل دیے ہیں۔ محترم زبیر صاحب کے دلائل کا خلاصہ: 1۔ سلیمان تیمی رحمہ اللہ کی اس زیادت اور قتادہ رحمہ اللہ کے دوسرے شاگردوں کی اس زیادت کے عدمِ ذکر میں جمع و تطبیق ممکن ہے۔ 2۔ یہ زیادت باقی حدیث کے منافی نہیں۔ 3۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بیس محدثین نے صحیح قرار دیا ہے۔ 4۔ اس زیادت کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کے دو متابع عمر بن عامر اور مجاعۃ بن الزبیر موجود ہیں۔ 5۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی شاہد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ 6۔ دس محدثین نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ 7۔ یہ زیادت کم از کم حسن لغیرہ تک پہنچ جاتی ہے۔