کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 366
ہم ان کے ممنون ہیں کہ انھوں نے اپنی دیگر گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر ہمارے موقف پر غور فرمایا اور پھر اس پر اپنا تبصرہ پیش فرما کے اس بحث کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ جزاہ اللّٰه عنا خیر الجزاء۔
ہمارے اس جواب جواب الجواب کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ جس طرح احادیث کی تصحیح اور تعلیل میں جمہور متقدمین کی بالخصوص اور جمہور متأخرین کی بالعموم مخالفت کر رہے ہیں، اسی طرح وہ زیادۃ الثقہ کے مسئلے میں بھی اپنی رائے کو ترجیح دینا پسند فرماتے اور اسے صحیح مسلم کی حدیث کا ’’دفاع‘‘ باور کراتے ہیں۔
صحیح مسلم کی حدیث کا دفاع؟
انھوں نے ’’الاعتصام‘‘ میں اپنے مضمون کا عنوان ہی ’’صحیح مسلم کی ایک حدیث کا دفاع۔۔۔‘‘ رکھا۔
اگرچہ من وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا ہر ہر ٹکڑا مستقل حدیث کے حکم میں ہے۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ اس زیادت کو صحیح مسلم سے کیا یہی نسبت ہے؟ کیا صاحبِ کتاب نے اسے مستقل سند سے ذکر کیا ہے؟ کیا راقم نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی مکمل روایت کو ضعیف قرار دیا ہے یا اس میں مذکور ایک زیادت پر کلام کیا ہے؟
اس لیے اسے ’’صحیح مسلم کی ایک حدیث کا دفاع‘‘ قرار دینا بجائے خود حقیقت کے برعکس ہے، کیونکہ ہم بھی محدثین کی طرح اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس میں مذکور زیادت کو شاذ قرار دیتے ہیں۔
موصوف دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں:
’’صحیح مسلم کی ایک حدیث کو خبیب احمد صاحب نے شاذ یعنی ضعیف