کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 363
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس حدیث کے بارے میں یہ فرمانا: ’’بعض ائمہ کا اسے ضعیف و معلول قرار دینا صحیح نہیں۔‘‘ (ماہنامہ الحدیث، ص: ۱۵؍ اپریل ۲۰۰۸ء) بجائے خود غیر صحیح ہے۔ کیا یہ ’’بعض ائمہ‘‘ ہیں یا اکثر ائمہ؟ متأخرین محدثین کی تصحیح قابلِ استناد ہے، یا جمہور متقدمین کا اس بارے میں فیصلۂ تضعیف؟ جنھوں نے اس روایت کو شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا، کیا ان تک جمہور محدثین بھی پہنچے اور انھوں نے ان شواہد کی تصحیح کی یا ان کو بھی معلول قرار دیا؟ جن محدثین پر یہ علت واضح ہوگئی ان کی تضعیف راجح ہوگی یا جن پر مخفی رہی، ان کی تصحیح؟ حدیثِ تیمی کی تضعیف کرنے والے کیا اس کی ثقاہت و حفظ سے بے خبر تھے؟ جمہور اہلِ اصطلاح نے رواۃ کے مابین مخالفت کی ایک ہی کسوٹی مقرر کی کہ ایک حدیث میں اثبات اور دوسری میں نفی ہو، جیسے محترم حافظ زبیر صاحب باور کرا رہے ہیں؟ مولانا حافظ زبیر صاحب کی یہ بات کس حد تک درست ہے کہ ’’کسی زیادت کو ذکر نہ کرنا مخالفت نہیں ہوتی اور نہ اسے شاذ کہنا صحیح ہے۔‘‘ (الحدیث، اپریل ۲۰۰۸ء) چلیے بفرضِ محال تسلیم کیا کہ یہ زیادت ہے مخالفت نہیں! اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ زیادت، زیادت کی حد تک ہے مخالفت نہیں تو اسے محدثین کی ایک جماعت نے کیوں شاذ قرار دیا؟ کیا اصطلاحی طور پر عدمِ مخالفت کی صورت میں بھی شذوذ پایا جاتا ہے اور جمہور محدثین اسے تسلیم کرتے ہیں؟ کیا ان اکابرینِ امت کو اس کا علم نہ ہوسکا جس کی عقدہ کشائی ہم نے کی کہ ’’یہ تو زیادت ہے مخالفت نہیں‘‘ اپنے اسلاف کے بارے میں ایسا تاثر کیسا رہے گا؟ اس لیے اس زیادت کے شذوذ اور ضعیف ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے۔ قارئینِ کرام! ہم نے ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کے بارے میں مختصر معروضات