کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 359
درست مانا جائے تو امام صاحب کو یہ فرمانا چاہیے تھا کہ ’’ھو صحیح أیضاً۔ جبکہ انھوں نے حدیثِ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحت کی تاکید ’’ھو عندي صحیح‘‘ سے مکرر کر دی۔ پھر حافظ ابوبکر رحمہ اللہ نے استفسار کیا کہ اگر وہ صحیح ہے تو آپ نے اسے صحیح مسلم میں کیوں نہیں جگہ دی؟ حالانکہ امام ابوبکر بھی جانتے تھے کہ امام صاحب نے صحیح مسلم میں سبھی صحیح احادیث کا استیعاب نہیں کیا۔ اس کے باوجود انھوں نے حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بابت ضرور پوچھا، کیونکہ انھیں پوری صحیح مسلم میں اس باب میں کوئی خاص حدیث نہیں ملی اور نہ اس زیادت کو امام صاحب نے کسی اور جگہ ذکر کیا ہے۔ جبکہ انھوں نے مقدمۂ کتاب میں اس کا وعدہ فرمایا کہ وہ مضامین، مسائل کی مناسبت سے مکمل احادیث یا صرف متعلقہ ٹکڑا ضرور ذکر کریں گے۔ واللّٰه أعلم بالصواب۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’فلا بدّ من إعادۃ الحدیث الذي فیہ ما وصفنا من الزیادۃ، أو أن نفصل ذلک المعنی من جملۃ الحدیث علی اختصارہ إذا أمکن۔۔۔‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم، ص: ۵) تنبیہ: یاد رہے کہ شیخ صالح بن حامد رفاعی نے شرح علل الترمذی لابن رجب کے حوالے سے امام اثرم رحمہ اللہ وغیرہ کی سلیمان پر تنقید کا جو دفاع کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تیمی مطلقاً ثقہ راوی ہے۔ قتادۃ سے بھی اس کا ضعف نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ہدی الساری میں متکلم فیہ رواۃ کی صف میں شامل نہیں فرمایا۔ مگر شیخ رفاعی نے سلیمان کی زیادت ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کے بارے میں سکوت فرمایا ہے۔ (الثقات الذین ضعفوا في بعض شیوخھم، ص: ۱۰۶)