کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 358
امام نووی رحمہ اللہ کا یہ جواب یہاں صادق نہیں آتا کیونکہ امام مسلم رحمہ اللہ نے یہاں صراحت فرما دی ہے کہ سلیمان نے یہاں ابن ابی عروبۃ، دستوائی وغیرہما کی مخالفت کی ہے اور اس سند میں تیمی کا کوئی متابع بھی نہیں۔ اس لیے یہ زیادت بھی ان کے ہاں اجماعی نوعیت کی حامل نہیں۔
ثالثاً: امام مسلم رحمہ اللہ اور حافظ ابوبکر رحمہ اللہ کے مابین جو مکاملہ ہوا اس کی درج ذیل صحیح تفسیر بھی امام نووی رحمہ اللہ کی تفسیر سے متصادم ہے۔ کیونکہ حافظ ابوبکر رحمہ اللہ نے امام مسلم رحمہ اللہ سے یہ سنا کہ ابو عوانۃ، قتادۃ سے ((فإن اللّٰه قضی علی لسان نبیہ)) بیان کرنے میں متفرد ہے اور انھوں نے آخرِ باب میں معمر عن قتادۃ کی متابعت ذکر کرکے اس کا تفرد دور کر دیا اور اصل حقیقت کی نقاب کشائی بھی کر دی کہ امام قتادۃ سے اس جملہ کی اصل موجود ہے۔
جب حافظ ابوبکر رحمہ اللہ نے یہ مناسبت تیمی کی زیادت کے ساتھ نہ دیکھی تو پوچھا: ’’في ھذا الحدیث‘‘ یعنی اس حدیث پر کیا حکم لگایا جائے گا؟ کیا جو مخالفت آپ نے ذکر کی ہے وہ سلیمان تیمی کی زیادت کے لیے مضر نہیں؟
امام مسلم رحمہ اللہ نے جواب دیا: ’’ترید أحفظ من سلیمان؟‘‘ یعنی سلیمان احفظ اور متقن نہیں جبکہ اس کے دوسرے ساتھی سلیمان سے بھی احفظ اور اتقن ہیں۔ بلکہ تیمی تو قتادۃ سے روایت کرتے ہوئے وہم کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ پھر ایسی صورت میں ایسے راوی پر کیونکر اعتماد کیا جا سکتا ہے، بالخصوص جب وہ قتادۃ کے کبار، ثقات تلامذہ کی مخالفت کر رہا ہو؟
حافظ ابوبکر رحمہ اللہ نے تیمی کی زیادت کو جب کمزور دیکھا تو انھوں نے اس موضوع کی دوسری حدیث (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) کی بابت استفسار کیا کہ وہ کیسی ہے؟ امام صاحب نے جواباً فرمایا: ’’ھو صحیح‘‘ اگر امام نووی کی تفسیر کو