کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 357
کیونکہ انھوں نے حافظ ابوبکر رحمہ اللہ سے بات چیت کرتے ہوئے آخر میں فرمایا: ’’میں نے الصحیح میں ان احادیث کو جگہ دی ہے جن کی صحت پر اجماع ہوچکا ہے‘‘ اور صحیح مسلم کے اساسی منہج کی توضیح فرمائی۔ سوال یہ ہے کہ ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کی صحت پر اجماع ہے؟ جواب یقینا نفی میں آئے گا۔ جس زیادت کو اعلام شاذ اور معلول قرار دیں، اس پر اجماع کا اطلاق فہم سے بالا تر ہے، بلکہ جس کی صحت کے خود امام مسلم رحمہ اللہ بھی قائل نہیں۔ اسی اجماع کی پاسداری کرتے ہوئے وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ نہیں لائے جسے انھوں نے خود اس مقام پر صحیح بھی کہا ہے۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک مقام پر فرمائیں: ’’میں نے اس کتاب کے لیے ان احادیث کا انتخاب کیا ہے، جو صحت کے اعتبار سے مجمع علیہ ہیں‘‘ اور دوسری جانب محدثین کے ہاں مختلف فیہ بلکہ ضعیف جملہ سے استدلال بھی کر رہے ہوں۔ یہ ہے امام نووی رحمہ اللہ کی اس تفسیر کی وجہ سے صریح تناقض! اس لیے امام مسلم رحمہ اللہ کے قول کی نووی تفسیر محلِ نظر ہے۔ امام نووی کے دوسرے قول کا جواب: امام نووی رحمہ اللہ کا یہ فرمانا: ’’ویقال: قد وضع أحادیث کثیرۃ غیر مجمع علیھا؟ وجوابہ: أنھا عند مسلم بصفۃ المجمع علیہ ولا یلزم تقلید غیرہ في ذلک‘‘ ’’کہا گیا ہے کہ امام صاحب نے صحیح مسلم میں ایسی احادیث بھی ذکر کی ہیں، جن کی صحت پر اجماع نہیں ہے؟ تو اس کا یہ جواب ہے کہ ان کے ہاں ان کی نوعیت اجماعی ہے اور انھیں اس میں کسی اور کی تقلید کی ضرورت نہیں۔‘‘ (شرح مسلم: ۱/ ۱۷۵، درسی نسخہ)