کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 356
جس بنا پر بقول امام نووی رحمہ اللہ ، امام مسلم رحمہ اللہ ، حافظ ابوبکر رحمہ اللہ کے استفسار پر اس زیادت کی صحت و ثبوت کا دفاع کر رہے ہیں!
جبکہ حافظ ابو مسعود دمشقی، جنھوں نے امام دارقطنی رحمہ اللہ کے صحیح مسلم پر اعتراضات کے جوابات دیے ہیں، نے امام نووی رحمہ اللہ کی اس توضیح کے بالکل برعکس نتیجہ نکالا ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اسے اختلاف بیان کرنے کے لیے ذکر کیا ہے، اس کی صحت اور ثبوت مطلوب نہیں۔
ان کے الفاظ ہیں:
’’وإنما أراد مسلم بإخراج حدیث التیمي لیبین الخلاف في الحدیث علی قتادۃ، لا أنہ یثبتہ، ولا ینقطع بقولہ عن الجماعۃ الذین خالفوا التیمي، قدم حدیثھم ثم أتبعہ بھذا‘‘(کتاب الأجوبۃ، ص: ۱۵۹۔ ۱۶۰)
اگر ہم امام مسلم رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد امام ابوبکر رحمہ اللہ کے مابین حدیثِ سلیمان اور حدیثِ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مکالمہ پر غور و فکر کریں اور اس مکالمہ کا مقارنہ امام نووی رحمہ اللہ اور حافظ ابو مسعود دمشقی رحمہ اللہ کے قول و تفسیر سے کریں تو یہ بات نکھر کر سامنے آئے گی کہ حافظ دمشقی رحمہ اللہ ہی کا موقف درست ہے۔ کیونکہ امام نووی رحمہ اللہ کی تفسیر سے جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ زیادۃ الثقہ کو مطلقاً قبول کرتے ہیں، جب کہ ان کا موقف اس کے بالکل برعکس ہے۔ جس کی دو مثالیں ہم پیچھے ذکر کر آئے ہیں۔
دوسرا جواب: امام نووی کی توضیح کا اسلوبِ کتاب سے تصادم:
ثانیاً: اگر امام نووی رحمہ اللہ کی تفسیر کو مدِ نظر رکھا جائے تو اس سے لازمی طور پر صحیح مسلم میں امام مسلم رحمہ اللہ کے منہج اور اس زیادت کی صحت میں صریح تناقض ہے