کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 355
امام مسلم نے تیمی کا تفرد دور کیوں نہیں کیا؟ ثالثاً: اگر یہ زیادت امام صاحب کے ہاں صحیح ہوتی تو انھوں نے اس اشکال کو کیوں نہیں دور فرمایا جو تیمی کا دیگر رواۃ کی مخالفت کرنے میں اور اس زیادت میں متفرد ہونے کی صورت میں پیدا ہوتا ہے؟ جبکہ اسی وقت انھوں نے وہ اشکال تو دور فرمایا جو ابو عوانہ کی زیادت کے بارے میں پیدا ہوا کہ انھوں نے فوراً ہی معمر کی متابعت ذکر کر دی۔ جس سے یہ بات نکھر کر سامنے آئی کہ قتادۃ سے روایت کرنے میں ابو عوانہ کی اس زیادت کی اصل موجود ہے۔ سلیمان تیمی کی زیادت کے بارے میں یہ نسبت کہاں ہے؟ ان تینوں قرائنِ قویہ سے معلوم ہوا کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے سلیمان تیمی کی زیادت کو قتادۃ کے تلامذہ کے مابین اختلاف ذکر کرنے کے لیے اور تیمی کے تفرد کی جانب اشارہ کرنے کے لیے ذکر کیا۔ اس سے استدلال قطعاً مقصود نہیں تھا اور نہ امام مسلم رحمہ اللہ اس زیادت کو صحیح اور درست سمجھ رہے ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ کی توضیح بھی محل نظر ہے: امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی جو تشریح کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ کے ہاں یہ زیادت صحیح ہے۔ لہٰذا امام ابوبکر رحمہ اللہ کی اس زیادت پر تنقید غیر سدید ہے، کیونکہ سلیمان حافظ ہیں اس لیے دیگر رواۃ کا ان کی مخالفت کرنا باعثِ قدح نہیں۔۔۔۔ (شرح النووی) سوال یہ ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ نے امام مسلم رحمہ اللہ کے کلام کی جو تفسیر کی ہے کیا سیاق و سباق اس کا مؤید ہے؟ یا عام شوافع کی طرح امام نووی رحمہ اللہ کا رجحان بھی اس جانب ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ بھی زیادۃ الثقہ کو مطلقاً قبول کرتے ہیں؟