کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 354
امام مسلم کا فَأنْصِتُوْا کو باب التشہد میں ذکر کرنا!
ثانیاً: امام مسلم رحمہ اللہ نے ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کو باب النھي عن القراء ۃ خلف الإمام میں ذکر نہیں کیا اور نہ اس معنی کی کسی اور حدیث میں اس کا تذکرہ کیا۔ اگر وہ تیمی کی زیادت کو صحیح تسلیم کرتے تو وہ اسے اس کے متعلقہ باب میں ضرور ذکر کرتے، بلکہ ان کے اسلوب سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نماز میں مطلق طور پر سورۃ الفاتحۃ کی قراء ت کے وجوب کے قائل ہیں اور امام کی جہری نمازوں میں اس کے پیچھے جہری سورت کی قراء ت کے ترک کے قائل ہیں۔
انھوں نے کتاب الصلوٰۃ، سورۃ القیامۃ کی آیت ﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ ﴾ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث (۴۴۸) کا ذکر کیا جس پر امام نووی رحمہ اللہ نے باب الاستماع للقراء ۃ کا عنوان قائم کیا۔ امام مسلم نے اس میں بھی تیمی کی زیادت کو ذکر نہیں کیا۔ اگر وہ اسے صحیح سمجھتے تو سلیمان تیمی عن قتادۃ کی پوری حدیث نقل فرماتے یا کم از کم اس مسئلہ سے متعلق ٹکڑا ہی ذکر کر دیتے جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کو انھوں نے کتاب الصلوٰۃ میں سلیمان تیمی کی حدیث کے چند ابواب کے بعد ذکر کیا ہے۔
جس باب میں امام صاحب نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے، اس کا تعلق نماز میں تشہد کے بارے میں ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث پر یہی باب قائم کیا ہے۔ لہٰذا تشہد کے باب میں انصات کا حکم دینا چہ معنی دارد؟ اس سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ انھوں نے اسے تشہد کے باب میں ذکر کر کے اس سے احتجاج نہیں کیا اور نہ اسے بطورِ استدلال پیش کیا ہے۔
ملحوظ رہے کہ اس زیادت کو امام ابو داود نے بھی باب التشہد میں ذکر کیا ہے۔