کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 353
شخص سند کو بیان کرنے میں ان کی مخالفت کرتا ہے، یا وہ متن تبدیل کر دیتا ہے۔ نتیجتاً وہ حفاظ کی روایت کے برعکس بیان کرتا ہے۔ اس وقت جان لیا جائے کہ دونوں روایتوں میں صحیح روایت وہی ہے، جسے حفاظ کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے۔ اکیلے کی روایت کا اعتبار نہیں۔ اگرچہ وہ حافظ ہی کیوں نہ ہو۔ اسی منہج پر ہم نے محدثین کو حدیث پر حکم لگاتے ہوئے دیکھا ہے، جیسے شعبہ، سفیان بن عیینہ، یحی بن سعید، عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ۔‘‘ (کتاب التمییز، ص: ۱۲۶) گویا امام مسلم رحمہ اللہ کے ہاں بھی ثقہ کی زیادت کا وہی حکم ہے، جو جمہور محدثین کا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ ثقہ کی زیادت کو مطلق طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ امام ابن مہدی، امام یحی قطان، امام ابن معین، امام احمد، امام ابن مدینی، امام بخاری، امام ابوزرعہ، امام ابو حاتم، امام نسائی، امام دارقطنی رحمہم اللہ وغیرہ بھی زیادت میں ترجیح کا اعتبار کرتے تھے۔ (نخبۃ الفکر، ص: ۴۷) امام مسلم کا زیادۃ الثقہ کو رد کرنا: 1. امام مالک رحمہ اللہ محدثِ مدینہ نے سند میں عن أبیہ کا واسطہ ذکر کیا، جسے جماعت نے بیان نہیں کیا، تو امام مسلم رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کی اس زیادت کو اُن کی خطا کی بنا پر رد کر دیا۔ (کتاب التمییز، ص: ۱۷۲، ۱۷۳) 2. سعید بن عبید جن کا شمار بھی ثقات میں ہوتا ہے، جب انھوں نے جماعت کی روایت کے برعکس حدیث القسامۃ میں ’’أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم سألھم البینۃ‘‘ کا اضافہ کیا تو امام مسلم رحمہ اللہ نے سعید کی روایت کو غلط اور وہم قرار دیا ہے۔ (کتاب التمییز، ص: ۱۴۶، تفصیل دیکھیے: فتح الباري، ۱۲/ ۲۳۴، ۲۳۶)