کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 347
التیمی، عن قتادۃ، عن یونس بن جبیر، عن حطان بن عبداللّٰه الرقاشی، عن أبي موسی الأشعری مرفوعاً۔ جبکہ وإذا قرأ فأنصتوا کی زیادت کے بغیر اسی حدیث کو اسی سند سے امام مسلم رحمہ اللہ 19۹۰۴)، امام ابو نعیم رحمہ اللہ المستخرج (۲/ ۲۷، ۲۸، ح: ۸۹۷)، امام ابو داود رحمہ اللہ 19۹۷۲)، امام نسائی رحمہ اللہ 19۱۱۷۳، ۱۲۸۱)، امام ابن ماجہ رحمہ اللہ 19۹۰۱)، امام طیالسی رحمہ اللہ 19۵۱۷)، امام عبدالرزاق رحمہ اللہ 19۲/ ۲۰۱، ۲۰۲، ح: ۳۰۶۵)، امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ 19۱/ ۲۵۲، ۲۵۳، ۲۹۲، ۳۵۲)، امام طحاوی رحمہ اللہ (شرح معانی الآثار، ۱/ ۲۶۴، ۲۶۵) وغیرہم نے روایت کیا ہے۔ وإذا قرأ فأنصتوا سلیمان تیمی کی زیادت ہے اور اس کے بارے میں جمہور متقدمین اور بعض متأخرین کا اختلاف چلا آرہا ہے۔ جمہور متقدمین کے ہاں تو یہ جملہ شاذ ہے، بلکہ بعض نے اس کے ضعف پر اجماع بھی نقل کیا ہے۔ ’’فأنصتوا‘‘ کا شذوذ: محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ’’صحیح مسلم میں سلیمان تیمی کی بیان کردہ حدیث ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ صحیح محفوظ ہے، بعض ائمہ کا اسے ضعیف و معلول قرار دینا صحیح نہیں اور نہ صحیح مسلم کی احادیث کو ضعیف اور شاذ کہنا جائز ہے۔‘‘ (الحدیث، اپریل ۲۰۰۸ء، ص: ۱۵) تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ سلیمان بن طرخان تیمی، امام قتادہ بن دعامۃ سے حدیث بیان کرتے ہوئے ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کی زیادت ذکر کرتے ہیں۔ جبکہ اس کی روایت کے برعکس قتادۃ کے مشہور اور اوثق شاگرد اس زیادت کو بیان نہیں کرتے، جن میں سعید بن ابی عروبہ، ہمام، شعبہ اور ہشام دستوائی، قتادہ