کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 345
فأنصتوا‘‘ کو معلول اور شاذ کیوں نہیں قرار دیا جا سکتا؟ جس کی تضعیف پر بلاشبہ متقدمین کا اجماع ہے۔ ایک شبہ کا ازالہ: یہاں ہم اس شبہ کا بھی ازالہ کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ صحیح مسلم کے خلاف ایسا تأثر، اس کی شان کے منافی ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ ان مثالوں سے امام مسلم رحمہ اللہ کی معرفتِ حدیث میں عبقری شخصیت نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔ ان کی دقتِ نظر اور فہمِ ثاقب کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے، یہ وہی تو اوصافِ حمیدہ ہیں جن کی بدولت وہ اہلِ اتقان و ضبط کی روایات کو دوسرے رواۃ کی روایت پر مقدم کرتے ہیں۔ ایک ہی شہر کے راویوں کی روایت کو دوسرے مختلف شہروں کے راویوں کی روایت پر ترجیح دیتے ہیں۔ ایک ہی قبیلہ کی روایت کو مختلف قبائل کی روایت پر ترجیح دیتے ہیں۔ عالی کو نازل پر مقدم کرتے ہیں۔ صحیح حدیث کو معلول حدیث پر مقدم کرتے ہیں۔ یہ خصائصِ اسنادیہ اس جلالت پر دلالت کرتے ہیں کہ انھیں بلاشبہ لاکھوں احادیث حفظ تھیں، بلکہ ان کے شذوذ اور علل تک بھی براہِ راست رسائی تھی۔ اس لیے یہ وضاحت تو اس عقیدہ کو راسخ کرتی ہے کہ صحیح مسلم، صحیح بخاری کے بعد اصح الکتاب بعد کتاب اللہ ہے۔ اللہ رب العزت ہمارے سبھی اسلاف کی مساعیِ جمیلہ کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے نوازے اور ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔