کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 342
’’پانچویں وجہ: امام مسلم نے بعض ضعیف راویوں سے بھی حدیث لی ہے، مگر یہ مضر نہیں، کیونکہ وہ پہلے حدیث کی عمدہ اسانید ذکر کر کے اسے بِنا قرار دیتے ہیں، پھر بطورِ تاکید ایسی سند یا اسانید ذکر کرتے ہیں جن میں ضعف (سقم) ہوتا ہے۔‘‘
9۔ شیخ مقبل بن ہادی رحمہ اللہ نے الإلزامات والتتبع کی تحقیق میں اقرار کیا کہ امام صاحب نے ان طرق کو توضیحِ علت کے لیے بیان کیا ہے۔ دیکھئے: ۱۴۴، ۱۴۵، ۱۴۷، ۱۵۷، ۱۶۵، ۱۹۶، ۲۱۶، ۲۳۷، ۲۸۵، ۲۹۳، ۳۰۰، ۳۳۷، ۳۳۸، ۳۴۲، ۳۵۱، ۳۶۵ وغیرہ۔
10۔ دکتور حمزہ ملیباری کے تتبع کے مطابق دکتور ربیع بن ہادی المدخلی نے ’’بین الإمامین‘‘ میں تقریباً بائیس جگہ اقرار کیا کہ امام صاحب نے ان کی تخریج بیانِ علت کے لیے کی ہے۔ (عبقریۃ الإمام مسلم، ص: ۸۵، ۸۷)
11۔ دکتور حمزہ ملیباری نے (عبقریۃ الإمام مسلم، ص: ۵۱۔ ۸۷) میں صراحت فرمائی کہ امام صاحب بیانِ علت وغیرہ کے لیے طرقِ حدیث بیان کرتے ہیں۔
12۔ امام منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے یہ طریق اس وجہ سے ذکر کیا کہ معلوم ہوجائے کہ ان کی نظر میں یہ طریق بھی تھا۔
(نصب الرایۃ للزیلعي: ۳/ ۳۲۱)
13 تا16۔ اسی قسم کی رائے علامہ قسطلانی، سیوطی، طاہر جزائری اور عبدالحق دہلوی رحمہم اللہ کی ہے۔ (عبقریۃ الإمام مسلم، ص: ۸۳، ۸۵)
17۔ حافظ ابن رشید فہری رحمہ اللہ کے ہاں بھی امام مسلم رحمہ اللہ معلول روایت کو بیان کرتے ہیں۔ (السنن الأبین، ص: ۱۰۰، ۱۰۱)