کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 340
کا، زیادت اور نقص کا اختلاف اور محدثین (راویان) کی تصحیفات کا ذکر کرتے ہیں۔‘‘ 2۔ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام صاحب ایسی حدیث ذکر کرتے ہیں جس کے رجال ثقات ہوتے ہیں اور وہ ایسی روایت کو اصل قرار دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد دوسری سند یا کئی ایسی اسانید ذکر کرتے ہیں، جن کے بعض راوی ضعیف ہوتے ہیں۔ اس متابعت سے پہلی سند میں تاکید پیدا کرنے کے لیے یا ایسی زیادت کا احاطہ کرنے کے لیے جس میں کوئی ایسا فائدہ ہو جو گزشتہ حدیث میں نہیں پایا جاتا۔ (صیانۃ صحیح مسلم، ص: ۹۵) 3۔ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام صاحب ان طرق میں ایسے رواۃ بھی لائے ہیں جو صحیح مسلم کی شرط پر نہیں جیسے عبدالرحمن بن خالد بن مسافر ہیں۔ (التبصرۃ والتذکرۃ للعراقي: ۱/ ۷۲) 4۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک حدیث ((أرأیت إذا منع اللّٰه الثمرۃ۔۔۔)) پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس کا مرفوع بیان کرنا وہم ہے، جس کی توضیح صحیح مسلم میں ہے۔ (التلخیص الحبیر: ۳/ ۲۸، ح: ۱۲۱۱) امام مسلم رحمہ اللہ نے جس سند کو توضیحِ علت کے لیے ذکر کیا ہے وہ محمد بن عباد کی سند ہے۔ (صحیح مسلم: ۱۶، دار السلام: ۳۹۷۹) نیز دیکھیے: بین الإمامین للمدخلي (ص: ۲۷۰ تا ۲۷۸)، موطأ إمام مالک (۳/ ۳۶۳، ۳۶۴، حدیث: ۱۴۲۰ تحقیق الھلالی)، الأحادیث التي خولف فیھا مالک بن أنس للدارقطني (برقم: ۶۷) 5۔ حافظ ابو مسعود دمشقی رحمہ اللہ کا اس حدیث کے بارے میں جو قول ہے، وہ ہم نقل کر آئے ہیں کہ امام صاحب نے تیمی کی حدیث کو بیانِ علت کے لیے