کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 336
امام بخاری، امام ترمذی رحمہما اللہ وغیرہ کا بھی یہی انداز ہے۔
مقدمۂ صحیح مسلم میں وہ معلول روایات کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’وسنزید ۔۔۔ إن شاءاللّٰه تعالیٰ ۔۔۔ شرحاً وإیضاحاً في مواضع من الکتاب عند ذکر الأخبار المعللۃ، إذا أتینا علیھا في الأماکن التي یلیق بھا الشرح والإیضاح۔ إن شاء اللّٰه۔ (مقدمہ صحیح مسلم، ص: ۶، دارالسلام)
’’عنقریب ہم اس کتاب میں کئی مقامات پر معلول احادیث ذکر کرکے ان کی مزید شرح و توضیح کریں گے، جہاں وہ مناسب رہے گی۔‘‘ ان شاء اللہ
یہ علت کیا ہے، جس کا ذکر انھوں نے اپنے متذکرہ بالا قول میں کیا؟ ظاہر بات ہے کہ اس سے مراد وہی علت ہے، جسے جمہور محدثین علت سمجھتے ہیں۔ یعنی ایسا سبب جو راوی کے وہم اور خطا پر دلالت کرے، قطع نظر وہ راوی ثقہ ہے یا ضعیف اور وہ علتِ قادحۃ صحتِ حدیث میں مؤثرۃ ہے یا غیر مؤثرۃ!
اس کی توضیح خود صحیح مسلم میں متعدد مقامات پر موجود ہے۔
پہلی مثال: زیادۃ الثقہ کا رد:
صحیح مسلم (کتاب صلاۃ المسافرین، باب کراھۃ الشروع في نافلۃ بعد شروع المؤذن۔۔۔، ح: ۶۵/ ۷۱۱ دار السلام: ۱۶۴۹) میں امام صاحب نے عبداللہ بن مسلمۃ قعنبی پر رد فرماتے ہوئے کہا اور ان کا اس سند میں عن أبیہ‘‘ کا واسطہ ذکر کرنا غلط ہے۔
ان کے الفاظ ہیں: ’’وقولہ: عن أبیہ، في ھذا الحدیث، خطأٌ‘‘