کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 335
طرف اشارہ کر رہے ہوں؟ مزید برآں ان کے علاوہ جہابذہ محدثین نے صراحتاً اس پر تنقید کی اور اسے معلول بتایا۔ اس سے ذرا آگے جس کی تضعیف اور شذوذ پر سبھی متقدمین بشمول صاحبِ کتاب متفق ہوں۔ کیا ایسی روایت کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ:
’’صحیح مسلم کی احادیث کو ضعیف اور شاذ کہنا جائز نہیں۔‘‘
جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ آخر کیوں ان علماء کی تصریحات کے بعد ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کو صحیح اور محفوظ کہا جا رہا ہے؟
متابعات اور شواہد میں معلول روایات اور امام مسلم کی توضیح:
صحیح مسلم کا دراستہ کرنے اور اکابرینِ امت کے اقوال مدِ نظر رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ عمومی طور پر ایک عنوان کے تحت، موضوع سے متعلق ایک سے زائد صحابۂ کرام کی مرویات ذکر کرتے ہیں۔ پھر ان روایات کے علیحدہ علیحدہ طرق بھی بیان کرتے ہیں۔ ان کی تفصیل میں وہ کبھی کبھار معلول سند بھی لے آتے ہیں اور کبھی ایسی سند کے ساتھ معلول متن بھی لے آتے ہیں اور کبھی معلول شاہد کا بھی تذکرہ کرتے ہیں، مگر یہ علت محلِ استشہاد میں مضر نہیں ہوتی۔ یاد رہے کہ وہ ایسی معلول حدیث اصل موضوع میں ذکر نہیں کرتے اور نہ ابتدائے باب میں ذکر کر کے اسے دوسری احادیث کی بنا قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اس اسلوب سے وہ ابواب مستثنیٰ ہوں گے جن میں صرف ایک ہی حدیث ہو۔
وہ ایسی معلول سند بطورِ احتیاط ذکر کرتے ہیں یا پھر ان کا مقصود اس میں پائی جانے والی علت کی توضیح ہوتی ہے یا اس باب میں موجود احادیث کے طرق کا تتبع مقصود ہوتا ہے۔ اس سے استدلال مطلوب نہیں ہوتا۔ تنہا ان کا یہ طریقہ نہیں بلکہ