کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 334
توضیحِ علت ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ وہ ایسی روایت کو اصل موضوع میں نہیں لاتے اور نہ کسی باب کو شروع کرتے ہوئے اس معلول روایت پر بنیاد رکھتے ہیں۔ جس کی مزید وضاحت آئندہ آئے گی۔
مختصر طور پر اسی مختلف فیہ جملہ ہی کو لیجیے، جس کے بارے میں حافظ ابو مسعود دمشقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام مسلم رحمہ اللہ نے (سلیمان بن طرخان) تیمی کی حدیث اس ارادہ سے ذکر کی ہے کہ وہ اس میں قتادۃ پر اختلاف بیان کریں۔ وہ اس کا اثبات کر رہے ہیں اور نہ وہ اس کے قول کو جماعت کے مقابلہ میں قبول کر رہے ہیں، جنھوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ امام صاحب نے جماعت کی حدیث کو مقدم کیا، پھر سلیمان تیمی کی حدیث کو اس کے تابع بنایا۔‘‘(الأجوبۃ لأبي مسعود الدمشقي، ص: ۱۵۹، ۱۶۰)
محترم حافظ زبیر صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’صحیح مسلم کی احادیث کو ضعیف اور شاذ کہنا جائز نہیں۔‘‘
(الحدیث، اپریل: ۲۰۰۸، ص: ۱۰)
ہمیں بھی اس بات سے اتفاق ہے کہ صحیح مسلم کی روایات کو ضعیف اور شاذ کہنا درست نہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ عمومی طور پر جب یہ جملہ بولا جائے تو اس کے معنی ہیں کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے جن روایات کو بطورِ اصول بیان کیا ہے، ان میں وہ ضعیف اور شاذ روایات نہیں لائے۔ لیکن کیا جن روایات کو انھوں نے متابعات اور شواہد میں ذکر کیا ہے، ان میں سے کسی کو ضعیف اور شاذ کہنا غیر سدید ہے؟ جبکہ خود صاحبِ کتاب اپنے اسلوب اور منہج سے اس کے شذوذ اور ضعف کی