کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 332
الصدوق کے بارے میں بھی کوئی حدود، قیود، شرائط اور احکام وضع کیے؟ کیا محدثین نے اسے مطلقاً قبول کیا؟ نہیں اور یقینا نہیں۔ بلکہ حافظ ابن حجر نے تو واشگاف الفاظ میں زیادۃ الصدوق، جب وہ مخالفۃ الثقہ ہو، کو قابلِ رد قرار دیا ہے۔ آخر کیوں! وہ فرماتے ہیں:
’’ولو کان في الأصل صدوقا؛ فإن زیادتہ لا تقبل‘‘(النکت: ۲/ ۶۹۰)
’’اگر وہ راوی صدوق ہو تو اس کی زیادت (ثقہ کے مقابلے میں) مقبول نہیں۔‘‘
دکتور خالد بن منصور فرماتے ہیں:
’’صدوق کی زیادت قبول نہیں کی جائے گی، کیونکہ وہ ثقہ اور حفظ میں شہرت یافتہ راوی کے مرتبہ سے کم ہے۔‘‘ (الحدیث الحسن: ۴/ ۲۰۵۵)
مصطلح سازی یقینا احادیثِ نبویہ کی براہِ راست خدمت ہے اور محدثین نے ان اصطلاحات کی تکوین کا کما حقہ حق ادا کر دیا۔ علمی و تحقیقی میدان میں اختلاف اچنبھا نہیں، مگر ان محدثین کی راہوں کو چھوڑ کر اپنی ایک علیحدہ راہ کا تعین انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہے۔ لہٰذا محترم سے گزارش ہے کہ محدثین کی وسعت نظری، استقرائے تام اور دقتِ فہم کی بنا پر ان کی اصطلاحات کو راجح اور مستحکم سمجھیں اور اصولیوں کے ہم خیال نہ بنیں۔ محدثین سے کسی برہان کے بغیر اختلاف کرنا مناسب نہیں اور نہ اس میں برکت ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو زمرۂ محدثین میں شامل فرما کر ان کے طریق کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین