کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 331
رجال اور سوانح کی کتب بے شمار حفاظ اور محدثین کے تذکرے سے بھری پڑی ہیں۔ پھر ان میں سے امام شافعی، امام حمیدی، امام مسلم، امام ابو داود، امام ترمذی وغیرہم ہی ان اصطلاحات کے اصل بانی مبانی ہیں۔ ان کے مابعد محدثین انھی اصطلاحات کی تفصیلات بیان کرتے اور ان پر اضافے کرتے چلے آئے اور بیشتر محدثین نے انھیں کی اصطلاحات پر اکتفا کیا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ وہ صدوق کی زیادت کو حسن قرار دیتے ہیں۔ بالخصوص وہ بھی ان ثقات کے مقابل، جن کے مدِ مقابل حافظ ثقہ کی بھی زیادت محدثین قبول نہیں کرتے۔ کیونکہ وہم اور نسیان سے کسی کو مفر نہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ ثقہ راوی اس روایت کو بیان کرنے میں وہم کا شکار ہوگیا ہو۔
ثقہ کا اطلاق اس راوی پر ہوتا ہے، جو عدالت اور ضبط (حافظے) کے اعتبار سے کامل ہو اور صدوق تو کہا ہی اسے جاتا ہے، جس کا ضبط ثقہ راوی کے ضبط سے خفیف (کمزور) ہو اور ایسے راوی پر اس اصطلاح کا اطلاق اس کی مرویات کا عمیقانہ نگاہ سے تجزیہ کرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ مذکورہ اصول کا مطلب یہ ہوا کہ جس راوی کا حافظہ (ضبط) خفیف ہو اسے ثقات کے مقابلے میں لا کھڑا کر دیا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ بات قطعاً قرینِ انصاف نہیں۔
محدثین رحمہم اللہ نے زیادۃ الثقہ کے بارے میں تو ضرور بحثیں کیں، اس کی صورتیں بتلائیں، ان صورتوں اور احوال کی مناسبت سے ان کی درجہ بندی کی، اسی تناسب سے ان کے احکامات کو کبھی مدرج، کبھی مقلوب، کبھی معلول، کبھی شاذ و منکر، کبھی زیادۃ الثقہ اور کبھی المزید فی متصل الاسانید میں ذکر کیا۔ لیکن ایسا اہتمام زیادۃ الصدوق کے بارے میں غالباً کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ کیا انھوں نے زیادۃ