کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 330
دی؟ بلکہ حدیث کے خلاف اٹھنے والی کسی قسم کی آواز کو قطعاً کبھی برداشت نہیں کیا، جن کی تخلیق کا مقصدِ وحید ہی شریعتِ اسلامیہ کی ٹھوس بنیادوں پر حفاظت کرنا تھا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی تراث کے حقیقی وارث تھے، اور انھوں نے کما حقہ اس وراثت کا حق بھی ادا کیا۔ آخر انھوں نے زیادۃ الثقہ کو مطلقاً قبول کرنے میں اصولیوں اور فقہاء کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ ایسی زیادت جس کے بارے میں واضح ہوگیا کہ وہ فرمانِ نبوی نہیں، اسے راوی کے وہم کی بنا پر حدیثِ نبوی کا حصہ قرار دینا، نیز ہر وہ زیادت جو بظاہر مخالف نہ ہو، اسے مطلقاً قبول کرنا علمِ اصولِ حدیث کے اعتبار سے ہماری نظر میں ایک بہت بڑا مغالطہ ہے، جو محترم کو لاحق ہوا ہے۔ ایک عجیب اصول: صدوق کی زیادت حافظ صاحب نے ایک اور اصول بیان فرمایا ہے: ’’صدوق کی زیادت کو حسن سمجھا جائے گا۔‘‘ (الحدیث، مارچ ۲۰۰۷ء، ص: ۳) اصول سازی خواہ کسی بھی فن میں ہو بلاشبہ ان عبقری شخصیات کا وتیرہ ہوتی ہے، جو اس فن کے نشیب و فراز اور اس کی تمام اصطلاحات اور ان کے مدلولات کو جانتی ہوں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کبار محدثین و حفاظ کے انبوہِ کثیر میں اہلِ اصطلاح امام شافعی، امام حُمیدی، امام مسلم، امام ابوداود، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام خطابی، امام قابسی، امام رامہر مزی، امام حاکم، امام ابو نُعیم، امام بغدادی، امام خلیلی، امام بیہقی، امام ابن عبدالبر، قاضی عیاض، امام میانشی، امام نووی، امام ابن الصلاح، امام ابن دقیق العید، امام ذہبی، امام ابن حجر، امام سخاوی، امام عراقی، امام سیوطی، امام ابن کثیر، امام بلقینی اور امام صنعانی رحمہم اللہ وغیرہم ہی کیوں قرار پائے؟ جب کہ