کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 329
محترم زبیر صاحب کے ہاں شاذ:
فأنصتوا کی زیادت کی بابت ان سے دریافت کیا گیا کہ راوی کا زیادت کا ذکر کرنا، ذکر نہ کرنے والوں کی مخالفت ہے؟ شاذ کی تعریف میں مخالفت کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ ثقہ کی زیادت کب مقبول اور کب شاذ ہوتی ہے؟
مولانا جواباً ارشاد فرماتے ہیں: ’’کسی زیادت کو ذکر نہ کرنا مخالفت نہیں ہوتی اور نہ اسے شاذ کہنا صحیح ہے۔ راجح یہی ہے کہ اگر ایک ثقہ راوی کئی ثقہ راویوں (یا اوثق) کی مخالفت کرے تو وہ روایت شاذ ہوتی ہے۔ اگر ثقہ کی سند اور متن میں زیادت کو شاذ قرار دیا جائے تو بہت سی صحیح احادیث کا انکار لازم آتا ہے۔
(ماہنامہ الحدیث، شمارہ: ۴۷، ص:۱۰، اپریل ۲۰۰۸ء)
ایک دوسری جگہ اپنے علمی رسالہ ماہنامہ الحدیث کے منہج کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ثقہ و صدوق راوی کی زیادت کو ہمیشہ ترجیح حاصل ہے۔ مثلاً ایک ثقہ و صدوق راوی کسی سند یا متن میں کچھ اضافہ بیان کرتا ہے، فرض کریں یہ اضافہ ایک ہزار راوی بیان نہیں کرتے، تب بھی اس اضافے کا اعتبار ہوگا اور اسے صحیح یا حسن سمجھا جائے گا۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ فلاں فلاں راوی نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے، مخالفت کی ہے، مردود ہے۔‘‘ (الحدیث: ۳۴، ص: ۳ مارچ ۲۰۰۷ء)
ہمیں احادیث کے ضیاع و انکار کے بارے میں استادِ محترم کے دردِ دل کا بخوبی احساس ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسی فکر ان محدثین کو بھی دامن گیر ہوئی، جنھوں نے اپنی ساری زیست حدیثِ نبوی کی خدمت اور اس کی ترویج میں گزار