کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 328
2۔ کسی شیخ کے خاص شاگرد کی روایت کو دوسرے راوی کی روایت پر ترجیح حاصل ہوگی۔ 3۔ اگر أحفظ اور حافظ کی روایت کے مابین تعارض پیدا ہو جائے تو أحفظ کی روایت راجح ہوگی۔ 4۔ ایک ہی شہر کے باشندوں کی ایک دوسرے سے روایت کو دوسرے مختلف شہروں کے راویوں کی روایت پر ترجیح ہوگی۔ 5۔ جس شیخ کا حافظہ متغیر ہو جائے یا وہ مختلط ہوجائے تو اس تغیر اور اختلاط سے پہلے سماع کرنے والے راویوں کی روایت کو ترجیح ہوگی۔ 6۔ جو راوی اپنی کتاب سے دیکھ کر احادیث بیان کرے اس کی روایت کو اس راوی کی روایت پر ترجیح ہوگی جو راوی اپنے حافظہ سے حدیث بیان کرتا ہے۔ 7۔ سند میں اختلاف کی صورت میں جس سند میں امام کبیر یا حافظ ناقد ہو اس کی سند کو دوسری سند پر ترجیح حاصل ہوگی۔ یہ ہیں چند مشہور وجوہِ ترجیحات، دکتور عبدالسلام علوش نے ’’تعلیل العلل لذوی المقل‘‘ میں (ص: ۳۷۷ تا ۵۰۲) چودہ وجوہِ ترجیح مع امثلہ بیان کی ہیں۔ شیخ نادر بن السنوسی العمرانی نے تقریباً تین درجن وجوہِ ترجیح بیان کی ہیں۔ (قرائن الترجیح في المحفوظ والشاذ: ۱/ ۱۷۹۔ ۵۴۶) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے فردِ واحد (امام یحی بن سعید القطان) کی روایت کو جماعت (عبداللہ بن نُمیر، ابو اسامہ، محمد بن بشر اور حسن بن عیاش) کی روایت پر ترجیح دی ہے۔ (العلل الواردۃ في الأحادیث: ۸/ ۱۳۴۔ ۱۳۵) گویا یہ نادر صورت ہے۔