کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 327
اسی قسم کی رائے دکتور ماہریاسین فحل کی ہے۔(الجامع في العلل والفوائد: ۲/ ۱۱۷، ۳/ ۱۱۱، ۴/ ۴۱۱) امام ابن وزیر کے ہاں بھی یہ اجتہاد کا مقام ہے، کیونکہ قرائن کے مختلف ہونے کی وجہ سے حکم بھی مختلف ہوجاتا ہے۔‘‘ (توضیح الأفکار: ۱/ ۳۱۲) قرائن: ان قرائن کی تحدید کیا ہے؟ ان کا تعین تو جہابذہ ائمہ ہی کر سکتے ہیں۔ حافظ علائی فرماتے ہیں: ’’ترجیح کی بے شمار وجوہات ہیں، جن کا احاطہ ممکن نہیں اور نہ تمام احادیث کی مناسبت سے اس کا کوئی خاص ضابطہ ہے، بلکہ ہر حدیث کی ایک خاص وجۂ ترجیح ہوتی ہے اور اسے وہی کہنہ مشق اور زیرک شخصیات سر انجام دے سکتی ہیں، جن کی اکثر اسانید اور روایات پر دسترس ہوتی ہے۔ اسی بنا پر متقدمین میں سے کسی نے اس مقام پر کوئی ایسا کلی حکم نہیں لگایا، جو قاعدہ پر مشتمل ہو، بلکہ ان کے ہاں ہر حدیث کی انفرادی حیثیت سے پائے جانے والے قرائن کی وجہ سے ان کا نقطۂ نظر بھی مختلف ہوجاتا ہے۔‘‘ (النکت: ۲/ ۷۱۲) تاہم کچھ قرائن محدثین نے صراحتاً بھی بیان کیے ہیں اگر ان کو تفصیل سے بیان کیا جائے تو یقینا یہ مختصر مضمون اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اختصار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے صرف اس کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ 1۔ اگر ایک جماعت کی روایت اور فردِ واحد کی روایت یا اکثر اور کم لوگوں کی روایت میں تعارض ہو جائے تو پہلی صورت میں جماعت کی روایت کو مقدم کیا جائے گا، جبکہ دوسری صورت میں اکثر لوگوں کی روایت کو ترجیح ہوگی۔