کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 326
حافظ ابن دقیق العید کا یہ قول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ذکر کیا ہے۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح: ۲/ ۶۰۴) علامہ ابو اسحاق الحوینی نے حافظ ابن دقیق العید کا قول درست قرار دیا ہے۔(تحقیق: جزء في تصحیح حدیث القلتین للعلائي: ۴۹، ۵۰) حافظ بقاعی فرماتے ہیں کہ ’’محدثین اس سلسلے میں کوئی عمومی حکم نہیں لگاتے، بلکہ وہ زیادت کو قرائن کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔‘‘ ان کے الفاظ ہیں: ’’ومن تأمل تصرفھم حق التأمل علم أنھم لا یحکمون في ھذہ المسئلۃ بحکم کلی ولٰکنھم دائرون في أفرادھا مع القرائن، فتارۃ یرجحون الوصل، وتارۃ الإرسال، وتارۃً روایۃ من زاد، وتارۃ روایۃ من نقص، و نحو ذلک، وھذا ھو المعتمد، وھو فِعْلُ جھابذۃ النقد وأعلامھم‘‘ (النکت الوفیۃ للبقاعي: ۱/ ۴۸۶۔ ۴۸۷) حافظ سخاوی نے بھی ابن مہدی، قطان، احمد، بخاری کا یہی موقف بیان فرمایا ہے۔ (فتح المغیث للسخاوي: ۱/ ۲۰۳) شیخ خالد بن منصور الدریس حافظ ابن حزم اور امام ابن ا لقطان الفاسی المغربی کی تردید میں رقمطراز ہیں: ’’ولیس ھذا منھج متقدمي المحدثین من أئمۃ النقد، فھم یعتمدون القرائن في مثل ذلک، ولا یأخذون بالزیادۃ دوماً‘‘ ’’زیادۃ الثقہ کو (مطلقاً) قبول کرنا متقدمین ناقدین کا منہج نہیں، وہ زیادت میں قرائن کا اعتبار کرتے ہیں، ہمیشہ زیادت کو قبول نہیں کرتے۔‘‘ (الحدیث الحسن: ۱/ ۲۳۸)