کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 325
نہیں، بلکہ اس کا انحصار قرائن پر ہے۔ جب کوئی قرینہ موصول کو ترجیح دیتا ہے۔ تو وہ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔‘‘ (فتح الباري: ۱۰/ ۲۰۳) دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں: ’’محدثین نے اس موصول روایت کی تصحیح اس بنا پر نہیں کی کہ وہ محض زیادۃ الثقہ ہے، بلکہ اس کی وجہ وہ مذکورہ قرائن ہیں، جو اسرائیل کی موصول روایت کو دیگر رواۃ کی مرسل روایت پر ترجیح دینے کے متقاضی ہیں۔‘‘ (فتح الباري: ۹/ ۱۸۴) حافظ علائی فرماتے ہیں: ’’اس فن کے متقدمین ائمۂ کرام: امام عبدالرحمن بن مہدی، امام یحی بن سعید القطان، امام احمد بن حنبل، امام بخاری جیسوں کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادۃ الثقہ کے مسئلے میں کوئی کلی حکم نہیں لگاتے، بلکہ اس میں ان کے عمل کا انحصار ترجیح پر ہے۔ اس لیے ان کے ہاں جو قرینہ نسبتاً قوی ہو وہی راجح قرار پاتا ہے۔‘‘ (النکت لابن حجر: ۲/ ۶۰۴) حافظ ابن دقیق العید فرماتے ہیں: ’’بعض یا اکثر محدثین سے بیان کیا جاتا ہے کہ جب مرسل اور مسند (موصول)، موقوف اور مرفوع اور کمی یا زیادتی میں تعارض پیدا ہوجائے تو زیادت (موصول، مرفوع، زیادت) کو ترجیح دی جائے گی۔ اس مسئلہ میں یہ مطلق قاعدہ ہمیں ملا نہیں، کیونکہ یہ عمومی قاعدہ نہیں ہے۔ ان محدثین کے جزوی احکام کا تجزیہ کرنے سے ہمارے موقف کا درست ہونا معلوم ہوجائے گا۔‘‘(مقدمۃ شرح الإلمام بأحادیث الأحکام لابن دقیق العید: ۱/ ۲۷۔ ۲۸)