کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 324
ثانیاً: راوی کا حال قبول اور رد کا میزان ہوتا ہے۔ اگر زیادت کا راوی احفظ اور اوثق ہو، یعنی اس زیادت کو نہ بیان کرنے والے سے زیادہ ثقہ ہو تو اس زیادت کو قبول کیا جائے گا۔ اگر دونوں تعدیل کے مرتبے میں برابر ہوں تب بھی اس زیادت کو قبول کیا جائے گا، اگر زیادت کا راوی، زیادت نہ کرنے والوں سے ثقاہت میں کم ہو تو اس کی زیادت قابلِ اعتنا نہ ہوگی، اور وہ بلاشبہ شاذ کے زمرے میں آئے گی۔ یہ اس زیادت کے حکم کا خلاصہ ہے، جسے محدثین نے مصطلح الحدیث میں شاذ اور منکر کے تحت بیان کیا ہے۔ ثالثاً: زیادتی کے قبول اور رد کا انحصار قرائن پر ہے۔ اس لیے اس میں پائے جانے والے داخلی اور خارجی قرائن کو مدِ نظر رکھنا ہوگا۔ اہلِ اصطلاح نے اس صورت کو ’’علت‘‘ کی بحث میں ذکر کیا ہے۔ زیادت میں قرائن کا اعتبار ہوگا: متقدمین اور متأخرین ائمۂ کرام زیادت میں قرائن کو پیشِ نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ متقدمین محدثین کی رائے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’متقدمین محدثین: امام عبدالرحمن بن مہدی، امام یحی القطان، امام احمد بن حنبل، امام یحی بن معین، امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام ابو زرعہ الرازی، امام ابو حاتم، امام نسائی، امام دارقطنی وغیرہ سے نقل کیا گیا ہے کہ زیادت وغیرہ میں ترجیح کا اعتبار کیا جائے گا۔ ان میں سے کسی سے یہ معروف نہیں کہ زیادت کو مطلق طور پر قبول کیا جائے گا۔‘‘(نزھۃ النظر في توضیح نخبۃ الفکر، ص: ۴۷) امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کے حوالے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’موصول کو مرسل پر مقدم کرنا امام بخاری اور امام مسلم کا عام قاعدہ