کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 323
زیادۃ الثقہ خواہ متن میں ہو یا سند میں یا دونوں میں، باستثنائے زیادتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، جمہور محدثین کے ہاں یہ دونوں صورتیں مطلقاً مقبول ہیں اور نہ مطلقاً مردود، بلکہ ان کے اعتبار کے لیے قرائن کو مدِ نظر رکھنا ہوگا۔ اگر وہ اس زیادت کو قبول کرنے کے متقاضی ہوں تو اسے قبول کیا جائے گا اور اگر رد کرنے کے متقاضی ہوں تو وہ ناقابلِ قبول ہوگی۔ مطلق طور پر زیادت قبول کرنے کا موقف حضرات محدثینِ عظام کا تو نہیں، البتہ اصولیوں اور فقہاء کا نظریہ اسے مطلقاً قبول کرنے ہی کا ہے۔ زیادۃ الثقہ کا مسئلہ محدثینِ کرام نے مصطلح الحدیث میں زیادۃ الثقہ کے عنوان کے علاوہ معلول، شاذ اور منکر کے تحت بھی بیان کیا ہے۔ اسی لیے زیادت کی مختلف صورتوں کی بنا پر حکم بدل جاتا ہے۔ زیادۃ الثقہ کے حکم کا خلاصہ: مصطلح الحدیث میں زیادۃ الثقہ کی بحث میں محدثین نے جو تفصیل بیان کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ۱۔ زیادتی کے رد اور انکار کا مدار اس پر ہوگا کہ وہ زیادتی دوسرے ثقہ راویوں کی روایت کے منافی ہو گی تو ایسی صورت میں جمہور محدثین کے ہاں ناقابلِ اعتبار ہوگی۔ ۲۔ اگر وہ منافی نہ ہو اور کوئی قرینہ اس کے خطا، نسیان یا وہم پر بھی دلالت نہ کرے، یعنی اس زیادت کو ایک مستقل حدیث ایسی اساسی حیثیت حاصل ہو تو وہ بلاشبہ قابلِ قبول ہوگی۔ فضیلۃ الشیخ استاذ ارشاد الحق اثری رحمہ اللہ نے توضیح الکلام (ص: ۶۶۷ تا ۶۷۵) میں زیادۃ الثقہ‘‘ پر جو کلام کیا ہے، وہ لائقِ مطالعہ ہے۔