کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 319
روایت میں نکارت یا مخالفت پائی جائے۔b. کثیر التدلیس کا عنعنہ ہو۔
۳۔ صراحتِ سماع کثیر التدلیس سے مطلوب ہے۔ جیسا کہ متقدمین کے اقوال اور تعاملات اس پر دلالت کرتے ہیں۔ انھیں جب شبہ گزرتا تو وہ قلیل التدلیس سے بھی اس کا تقاضا کرلیتے۔ جس کا یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ ہر قلیل التدلیس بھی اپنے سماع کی توضیح کرے۔
۴۔ عام طور پر کلمہ ’’عن‘‘ مدلس کا نہیں ہوتا۔
۵۔ طبقات المدلسین کی تالیف سے ہنوز یہ طبقاتی تقسیم معمول بہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ اس میں ایسے مدلسین بھی شامل ہیں جو تدلیس الشیوخ یا تدلیس الصیغ کا ارتکاب کرتے ہیں۔
اول الذکر قسم میں صیغِ ادا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کا عنعنہ اور صراحتِ سماع دونوں یکساں ہیں۔
مؤخر الذکر قسم (تدلیس الصیغ) میں مدلس کا عنعنہ مقبول ہوتا ہے۔
اسی طرح طبقات المدلسین میں مذکور بعض روات کے طبقے میں اختلاف ہے۔ چند محدثین قلیل التدلیس قرار دیتے ہیں اور بعض کثیر التدلیس، بلکہ بسا اوقات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا اجتہاد بھی متغیر ہوتا ہے، لہٰذا یہ مسئلہ اجتہادی نوعیت کا حامل ہے۔
۶۔ مسئلۂ تدلیس کی کنہہ جاننے والے طبقاتی تقسیم کے قائل ہیں۔
۷۔ برصغیر کے اکابر محدثین کا یہی موقف ہے۔
۸۔ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کا قول بہ طورِ اثبات ذکر نہیں کیا، بلکہ بہ طور فایدہ ذکر کیا ہے۔ بعد ازاں مقدمہ ابن الصلاح کی مناسبت سے اس کے مختصرات میں یہ قول نقل در نقل چلا گیا۔