کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 317
۱۴۔ شیخ محمد بن العثیمین رحمہ اللہ (الصیدالثمین في رسائل الشیخ محمد العثیمین: ۲/ ۱۲۰ مصطلح)
۱۵۔ دکتور عواد الخلف (روایات المدلسین في صحیح مسلم: ۷۲، ۷۳)
۱۶۔ دکتور علی تالیف بقاعی (الاجتھاد في علم الحدیث وأثرہ في الفقہ الإسلامي، ص: ۲۷۴)
علاوۂ ازیں سابقہ صفحات میں ’’متخصصین کی آرا‘‘ کا عنوان ملاحظہ کیجیے۔
جمہور علماء و محدثین کے خلاف محترم زبیر صاحب نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ذکر کردہ مدلسین کی تقسیم یوں کی ہے۔
۱۔ تدلیس سے بری۔
۲۔ مدلس ہے پھر اس میں تیسرے، چوتھے یا پانچویں طبقے کو شامل کیا۔
گویا پہلا اور دوسرا (قلیل التدلیس کا) طبقہ بالکل ہی ختم کردیا۔ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ سفیان بن عیینہ کو طبقۂ ثالثہ میں دھکیل دیا، حالانکہ ان کا عنعنہ بالاتفاق مقبول ہے۔ کیا محترم صاحب اس ’بدیع اجتہاد‘ کی تائید میں کوئی معتبر حوالہ قارئین کے سامنے پیش کرسکتے ہیں؟ بہرحال یہ راہ انتہائی خطرناک ہے۔ واللہ المستعان۔
بعض لوگوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’’عصرِ حاضر میں بعض جدید علما مثلاً حاتم الشریف العونی وغیرہ نے بعض شاذ اقوال لے کر قلیل اور کثیر التدلیس کا شوشہ چھوڑا ہے۔ انھوں نے اس مسئلے کو لٹھ مار کر غرق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘
عرض ہے کہ شیخ حاتم سے قبل یہی مسئلہ پاکستان میں سید بدیع الدین راشدی، سید محب اللہ راشدی، علامہ محمد گوندلوی، مولانا ارشاد الحق حفظہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ بلکہ سید بدیع الدین رحمہ اللہ کی نظم محترم زبیر صاحب نے الفتح المبین