کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 310
نووی رحمہ اللہ نے اسنادہ صحیح قرار دیا ہے۔ (المجموع: ۵/ ۳۲۰)
ہمارے نزدیک بھی یہ روایت صحیح ہے، بلکہ اسے کسی نے بھی ضعیف نہیں کہا، مگر محترم زبیر صاحب فرماتے ہیں: ’’یہ روایت اسماعیل کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔‘‘ (الحدیث: شمارہ۳۸، جولائی ۲۰۰۷، صفحہ۲۲، ۲۳، حضرو، اٹک)
۲۔ نووی نے اعمش کی روایت پر حکم لگایا: ’’إسنادہ جید، ھذا حدیث حسن‘‘ ’’المجموع (۱/ ۳۸۲) الأذکار: (۱/ ۸۲، حدیث: ۵۳)، ریاض الصالحین‘‘ وغیرہ۔
اس روایت کو دیگر محدثین نے بھی صحیح قرار دیا ہے مگر محترم زبیر صاحب لکھتے ہیں:
’’إسنادہ ضعیف، الأعمش مدلس، وعنعن في ھذا اللفظ‘‘(ضعیف سنن أبي داود: ۴۱۴۱، أنوار: ۱۴۷، وضعیف ابن ماجہ: ۴۰۲، أنوار: ۳۹۲)
’’اس کی سند ضعیف ہے۔ اعمش مدلس ہیں۔ انھوں نے یہ لفظ معنعن بیان کیا ہے۔ ‘‘
۳۔ نووی اعمش کی دوسری روایت پر حکم لگاتے ہیں: ’’إسنادہ صحیح‘‘ المجموع (۴/ ۲۹۵) محترم زبیر صاحب رقمطراز ہیں:
’’إسنادہ ضعیف، الأعمش عنعن‘‘(ضعیف سنن أبي داود: ۵۹۷، أنوار: ۳۵)
’’اس کی سند ضعیف ہے، اعمش نے عنعنہ سے بیان کیا ہے۔‘‘
۴۔ حسن بصری کی روایت کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حدیث صحیح: رواہ أبو داود … بأسانید صحیحۃ‘‘
(المجموع: ۲/ ۸۸، الأذکار: ۱/ ۹۰، حدیث: ۸۱، الإیجاز في شرح سنن أبي داود: ۱۳۵)
’’صحیح حدیث ہے۔ ابو داود نے … اسے صحیح سندوں سے روایت کیا ہے۔‘‘