کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 290
۱۲۔ حافظ ابن عدی رحمہ اللہ اسی راوی کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’شیطان في التدلیس‘‘ (تاریخ دمشق: ۵۵/ ۱۷۳) ’’الکامل لابن عدی‘‘ (۶/ ۲۳۰۲) میں یہ قول نہیں مل سکا۔ ان اقوال سے معلوم ہوا کہ متقدمین اور متاخرین نے بالصراحت مدلسین کو قلیل یا کثیر التدلیس قرار دیا ہے۔ بنابریں حافظ علائی نے طبقات بنائے بعد ازاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس میں توسع کیا۔ دوسری صورت: ائمۂ فن کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے جب وہ کثیر التدلیس مدلس کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی کرتے ہیں کہ اس کی روایت میں سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ابن اسحاق کے بارے میں جب فرمایا: وہ بہت زیادہ تدلیس کرتے ہیں تو تب یہ وضاحت کردی کہ میرے نزدیک اس کی وہی حدیث عمدہ ہوگی جس میں وہ سماع کی صراحت کریں گے۔ اس قسم کی امثلہ پہلے گزر چکی ہیں۔ ملاحظہ ہوں: عنوان: ’’صراحتِ سماع کا کثیر التدلیس سے مطالبہ۔‘‘ ان کے علاوہ مزید مثالیں پیشِ خدمت ہیں: ۱۔ امام ابوخالد ابن طہمان رحمہ اللہ نے یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے سنا کہ میں ابن ابی اللیث کے پاس حاضر ہوا تو انھوں (ابن ابی اللیث) نے ہشیم سے کہا: اگر تو ہم کو أخبرنا سے حدیث بیان کرے گا تو درست ہے، ورنہ ہم تجھ سے ایک حرف بھی نہ لکھیں گے۔ (من کلام أبي زکریا: ۹۱، ۹۲، فقرۃ: ۳۲۴) ۲۔ امام ابو نعیم الفضل بن دکین، یحییٰ بن ابی حیۃ ابوجناب الکلبی کے بارے میں