کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 289
۴۔ زکریا بن ابی زائدہ کے بارے میں ابوزرعہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
’’یدلس کثیرا عن الشعبی‘‘ (الجرح والتعدیل: ۳/ ۵۹۴)
’’وہ شعبی سے بہ کثرت تدلیس کرتے ہیں۔‘‘
۵۔ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سوید بن سعید: کان یدلس یکثر ذاک یعنی التدلیس‘‘(الجرح والتعدیل: ۴/ ۲۴۰)
’’سوید بن سعید باکثرت تدلیس کرتے ہیں۔‘‘
۶۔ امام ابوداود رحمہ اللہ ، مبارک کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’شدید التدلیس‘‘ (سؤالات الآجري: ۱/ ۳۹۰)
۷۔ امام ابن سعید رحمہ اللہ اسی کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’یدلس کثیراً‘‘ (الطبقات الکبری: ۷/ ۳۱۳)
۸۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ ایک راوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’کان کثیر التدلیس، الغالب من التدلیس‘‘ (المجروحین: ۲/ ۱۱۲)
۹۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابن جریج: یتجنب تدلیسہ فإنہ وحش التدلیس‘‘(سؤالات الحاکم للدارقطني: ۱۷۴)
’’ابن جریج کی تدلیس سے محتاط رہا جائے کیونکہ وہ خطرناک تدلیس کرتے ہیں۔‘‘
۱۰۔ دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یحیی بن أبی کثیر یدلس کثیراً‘‘ (التتبع: ۱۲۶)
۱۱۔ امام ابوبکر اسماعیلی رحمہ اللہ ، محمد بن محمد الباغندی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’خبیث التدلیس‘‘ (تاریخ دمشق: ۵۵/ ۱۷۰)