کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 288
۴۔ امام یعقوب بن شیبۃ رحمہ اللہ نے محمد بن خازم ابو معاویہ کے بارے میں فرمایا:
’’ثقۃ، ربما دلّس‘‘ (سیر أعلام النبلاء: ۹/ ۷۶، تاریخ بغداد: ۵/ ۲۴۹)
۵۔ امام ابو داود رحمہ اللہ ، محمد بن عیسیٰ الطباع کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’اسے قریباً چالیس ہزار احادیث حفظ تھیں۔ وہ بسا اوقات تدلیس بھی کرتے تھے۔‘‘ (سؤالات الآجری: ۲/ ۲۴۶، فقرۃ: ۱۷۳۷)
۶۔ امام ابن سعد رحمہ اللہ ، حمید الطویل کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ثقہ اور کثیر الحدیث ہے، مگر وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بسا اوقات تدلیس کرتے ہیں۔‘‘ (الطبقات الکبری: ۷/ ۲۵۲)
۷۔ حافظ عجلی رحمہ اللہ ، اسماعیل بن ابی خالد کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’وکان ربما أرسل الشیٔ عن الشعبي‘‘(معرفۃ الثقات والضعفاء للعجلي: ۱/ ۲۲۵، تاریخ الثقات: ۶۴)
’’کہ وہ (ابن ابی خالد) بسا اوقات شعبی سے ارسال (تدلیس) کرتے ہیں۔‘‘
کثیر التدلیس کی صراحت:
۱۔ امام احمد رحمہ اللہ نے محمد بن اسحق کے بارے میں فرمایا:
’’ھو کثیر التدلیس جدا‘‘
’’وہ بہ کثرت تدلیس کرتے ہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل: ۷/ ۱۹۴)
۲۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ہشیم بن بشیر کے بارے میں فرمایا:
’’ھو کثیر التدلیس جداً‘‘ (المعرفۃ والتاریخ: ۲/ ۶۳۳)
۳۔ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ ، مبارک بن فضالۃ کے بارے میں رقمطراز ہیں:
’’یدلس کثیراً‘‘ (الجرح والتعدیل: ۸/ ۳۳۹)