کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 284
اگر اس کی ایسی کوئی مثال نہیں تو امام ابن معین رحمہ اللہ کے قول سے ہمارا استدلال بدستور برقرار رہے گا۔
ثالثاً: امام ابن معین رحمہ اللہ کے قول سے یہ ناچیز اکیلا مستدل نہیں، بلکہ درج ذیل علماء کی تائید بھی حاصل ہے۔
مستدلین علماء:
۱۔ دکتور خالد بن منصور الدریس۔ (الحدیث الحسن لذاتہ ولغیرہ: ۱/ ۴۷۵)
۲۔ شیخ عبداللہ بن یوسف الجدیع۔ (تحریر علوم الحدیث: ۲/ ۹۷۳)
۳۔ شیخ محمد بن طلعت نے شیخ جدیع کے احکام مقدمۂ ’’معجم المدلسین‘‘ (۳۸) میں ذکر کیے ہیں۔
۴۔ شیخ ناصر بن حمد الفہد۔ (منہج المتقدمین في التدلیس: ۱۶۳)
۵۔ شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن السعد۔ (مقدمۂ منہج المتقدمین: ۲۳)
۶۔ شیخ الشریف حاتم۔ (المرسل الخفي: ۱/ ۴۸۸)
۷۔ شیخ ابراہیم بن عبداللہ اللاحم۔ (الاتصال والإنقطاع: ۳۲۱)
۸۔ دکتور علی بن عبداللہ الصیاح(الموسوعۃ عن الإمام یعقوب بن شیبۃ: ۱/ ۲۰۱، ۲۰۲)
۹۔ دکتور عواد الخلف (روایات المدلسین في صحیح مسلم: ۶۶)
امام ابن مدینی کے قول پر اعتراضات:
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کے قول: ’’جب مدلس پر تدلیس غالب ہو تو تب وہ حجت نہیں، یہاں تک وہ اپنے سماع کی توضیح کرے۔‘‘ (الکفایۃ: ۲/ ۳۸۷) پر آٹھ اعتراضات وارد ہوسکتے ہیں۔