کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 278
ان سے بری ہیں۔ (مقدمۃ مرویات الزھري المعلۃ: ۱/ ۵۶) بلاشبہ ذخیرئہ حدیث مرویاتِ زہری سے معمور ہے۔ مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم علومِ اسلامیہ کی عظیم دانش گاہ تھی اور ان کے باشندگان کی اسانید بھی زہری کے گرد گھومتی ہیں۔ بایں وجہ لوگوں نے جہاں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر معتبر قرار دیا، وہیں زہری کی طرف بھی تشیع کے مسموم تیر برسائے گئے۔ تاکہ ان دونوں کی وجہ سے ذخیرئہ حدیث مشکوک بنایا جائے۔ اس جملۂ معترضہ کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ زہری اپنی مرویات کے تناسب سے نہایت معمولی تدلیس کرتے ہیں۔ بنابریں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے انھیں نادر التدلیس قرار دیا ہے اور ائمہ نے ان کا عنعنہ قبول کیا ہے۔ اس شخص پر امام دارقطنی رحمہ اللہ کی معرفتِ علل مخفی نہیں رہ سکتی جو علل الدارقطنی یا کم از کم سنن الدارقطنی کا مطالعہ کرتا ہے۔ بالفاظِ دیگر امام دارقطنی کے بعد اس فن میں اتنی مہارت کسی اور کی قسمت میں نہ آسکی۔ انھوں نے علل الدارقطنی میں معلول شدہ مرویات جو ذکر کی ہیں وہ ڈیڑھ صد میں سے صرف پانچ، بطورِ تسلیم، تدلیس شدہ ہیں۔ یہ تناسب بلاشبہ زہری کے قلیل التدلیس ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ چوتھا جواب: جس شخص کا اصرار ہو کہ زہری کثیر التدلیس ہیں تبھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انھیں طبقۂ ثالثہ میں ذکر کیا ہے۔ اسے اس دعویٰ کے مطابقت دلیل سے کرنی چاہیے۔ جس کا تقاضا ہے کہ زہری کی سبھی مرویات کا استیعاب کیا جائے۔ ان میں سے تدلیس شدہ کا استخراج کیا جائے۔ ازاں بعد ان کی تعداد کا تقابل زہری کی