کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 274
بلکہ بعض فضلا نے اسے ضعیف بھی گردانا ہے۔ جبکہ دیگر ائمہ نے اس کی تصحیح کی ہے، جو حسبِ ذیل ہیں: ۱۔ امام العلل الدارقطنی: ’’ھذا إسناد صحیح‘‘(سنن الدارقطني: ۱/ ۳۵۰، حدیث: ۴) ۲۔ امام بیہقی نے ان کی موافقت کی ہے۔(السنن الکبری للبیہقي: ۲/ ۱۳۸، البدر المنیر: ۴/ ۱۳) ۳۔ حافظ ابن الملقن: ’’ھذا الحدیث صحیح‘‘ (البدر المنیر: ۴/ ۱۳) ۴۔ حافظ ابن حجر: ’’إسنادہ صحیح‘‘ (فتح الباري: ۲/ ۳۱۲) ۵۔ حافظ ابن عبدالہادی: ’’رواہ النسائي والدارقطنی وصحح إسنادہ‘‘(المحرر في الحدیث: ۱/ ۲۰۳۔ ۲۰۴) ۶۔ محدث البانی نے اس حدیث کو شرطِ شیخین پر صحیح قرار دیا ہے۔(صفۃ الصلاۃ: ۳/ ۸۹۴) ۷۔ شیخ سلیم بن عید الہلالی۔ ’’صحیح ‘‘(التخریج المحبر الحثیث:۱/ ۳۴۸، حدیث: ۲۶۵) ۸۔ شیخ مجدی حسن: ’’إسنادہ حسن‘‘ (تحقیق سنن الدارقطني: ۱۳۱۲) علامہ ابن الترکمانی حنفی کے علاوہ کسی اور نے ابن عیینہ کے عنعنہ کو موضوعِ بحث نہیں بنایا۔ (الجوھر النقي: ۲/ ۱۳۸) امام ابن عیینہ ثقہ حافظ فقیہ امام حجت ہیں۔ (التقریب: ۲۷۰۰) ان کی یہ زیادت بقیہ حدیث کے منافی نہیں۔ کوئی قرینہ اس کے خطا پر بھی دلالت نہیں کرتا۔ لہٰذا اس زیادت کو اساسی صورت کی بنا پر قبول کیا جائے گا۔ بنابریں محدثین کی ایک جماعت نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ اس ٹکڑے سے استدلال کرتے ہوئے ترجمۃ الباب قائم کرتے ہیں: