کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 273
۱۱۔ حافظ سخاوی رحمہ اللہ : ’’رہے امام ابن عیینہ تو انھوں (محدثین) نے اس کی تدلیس کو برداشت کیا ہے، رد نہیں کیا۔‘‘ (فتح المغیث:۱/ ۲۱۵) ۱۲۔ شیخ ربیع مدخلی: ’’سفیان بن عیینہ کا عنعنہ مقبول ہونے میں محدثین کا اختلاف نہیں، کیونکہ ان پر واضح ہوگیا کہ وہ صرف ثقہ سے تدلیس کرتے ہیں۔ بنابریں حافظ (ابن حجر) نے انھیں مدلسین کے طبقۂ ثانیہ میں ذکر کیا ہے۔ جن کی تدلیس ائمہ نے برداشت کی ہے۔ حافظ (ابن حجر رحمہ اللہ ) نے سفیان کے حق میں یقینا درست فیصلہ کیا ہے۔‘‘ (الرد المفحم: ۳۸) ۱۳۔ شیخ ابوعبیدہ: ’’لہٰذا جب ابن عیینہ روایت معنعن بیان کریں تو ان کی روایت سے خوفزدہ نہ ہوں۔ وہ ہمیشہ ہمیش اتصال پر محمول کی جائے گی۔‘‘(بھجۃ المنتفع: ۳۸۴) ۱۴۔ دکتور عواد حسین خلف نے حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کے قول کے تناظر میں ان کی موافقت کی ہے۔ (روایات المدلسین في صحیح مسلم: ۷۱) ۱۵۔ یہی موقف محدث ابواسحاق الحوینی کا ہے۔(بذل الإحسان: ۱/ ۱۶، جنۃ المرتاب: ۲۱۳، ۲۱۴، بحوالہ نثل النبال: ۱/ ۵۲۹) ابن عیینہ کی ایک معنعن روایت: امام سفیان بن عیینہ نے ایک معنعن حدیث بیان کی ہے۔ جس میں وہ ’’قبل أن یفرض التشھد‘‘ (تشہد کی فرضیت سے قبل) کے الفاظ بیان کرنے میں منفرد ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کے تناظر میں یہ روایت ضعیف ہے،